بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ضروریاتِ دین سے مراد؟ / حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کے منکر کا حکم / غلام قادیانی کو صاحب یا مامور من اللہ کہنے کا حکم


سوال

۱۔  ضروریاتِ دین میں کون کون سی باتیں آتی ہیں؟ مکمل فہرست مطلوب ہے۔

۲۔  حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام اور نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ ضروریاتِ دین میں سے ہے کہ نہیں؟ اگر کوئی شخص اس میں تاویل کرے تب اس کا کیا حکم ہے؟کیا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا صرف اہل سنت سے خارج ہے؟

امداد الفتاویٰ ، ماہنامہ الخیر اور اکفار الملحدین کی عبارات میں ظاہری تعارض کی کیا توجیہ ہے؟ 

علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے اکفار الملحدین میں تحریر فرمایا ہےکہ "انه قد تواتر وانعقد الإجماع علی نزول عیسی بن مریم عليه السلام ، فتاویل ھذہ و تحریفه کفر ایضا."

(اکفار الملحدین فی ضروریات الدین،مولانا انور شاہ الکشمیری،ص 33، دار البشائر الاسلامیۃ)

جب کہ حکیم الامت رحمہ اللہ  نے امداد الفتاویٰ میں تحریر فرمایا ہےکہ

سوال: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا معتقد دائرہ اسلام سے خارج ہے کہ نہیں؟ جواب: اس نص قطعی الثبوت کا اگر یہ شخص منکر ہے تو اسلام سے خارج ہے اور اگر اس کو غیر قطعی الدلالۃ قرار دے کر تاویل کرتا ہے تو مبتدع و ضال ہے۔

(امداد الفتاویٰ،ج5،ص440،سوال 392،مکتبہ دارالعلوم کراچی،2010ء)

مولانا امین صفدر اوکاڑویؒ نے فرمایا ہے کہ ۔۔۔اور کچھ عقائدواعمال ضروریات اہل سنت والجماعت کے درجہ میں ہیں، اس سے وہ عقائد و اعمال مراد ہیں، جو قرن ثانی و ثالث میں عوام و خواص میں مشہور ہو گئے، جن کی آسان پہچان یہ ہے کہ ان پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہو، جیسے: پہلی تکبیر کی رفع یدین ، حیات عیسیٰ،۔۔۔،وغیرہ ان مسائل کو ضروریات اہل سنت کہتے ہیں،  ان مسائل کو اسی مفہوم کے مطابق ماننا جس طرح مانتے ہیں، ان میں سے کسی کے انکار یا باطل تاویل کرنے سے انسان اہل سنت سے نکل کر اہل بدعت میں شامل ہو جاتا ہے۔

(ماہنامہ الخیر ملتان،مولانا امین صفدر اوکاڑویؒ نمبر،ص 171)

۳۔  کیا مرزا غلام احمد قادیانی کے نام کے ساتھ "صاحب" لگانا جائز ہے؟ اور اگر کوئی مرزا غلام احمد قادیانی کے نام کے ساتھ "صاحب" لگائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

۴۔  اگر کوئی مرزا غلام احمد قادیانی کو "المامور من اللہ" مانے یا اسکے نام کے ساتھ "المامور من اللہ" تحریر کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

(مکتوباتِ سرسید،شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، جلد 2، ص 215،مجلس ترقی ادب لاہور، 1985ء)

جواب

ضروریاتِ دین سے وہ تمام دینی امور مراد ہوتے ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر تواتر کے ساتھ ثابت ہوں، اور جن کا دین محمدی ہونا ہر خاص وعام کو بداہۃً معلوم ہو، یعنی ان کا حصول کسی خاص اہتمام اور تعلیم پر موقوف نہ ہو، بلکہ عام طور پر وہ امور مسلمانوں کو وراثتاً معلوم ہوجاتے ہوں، مثلاً:نماز،روزہ حج، زکوة کی فرضیت اور زنا،قتل،چوری ،شراب خوری وغیرہ کی حرمت وممانعت وغیرہ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا خاتم الأنبیاء ہونا،حشرونشر،جزاء سزا وغیرہ۔

ایسے تمام دینی امور جن کاثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی تواتر کے ساتھ منقول ہو ان کو ''ضروریات''دین کہاجاتاہے،جوشخص اسلام کے ان قطعی وضروری احکام کا منکریا ان میں سے کسی ایک کامنکر ہو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے،خواہ  وہ مسلمانوں کے گھرانے سے تعلق رکھتاہو اور نام بھی مسلمانوں جیساہو،اور اس کی بیوی بھی اس پر حرام ہوجاتی ہے۔

"قال العلامة الکشمیری۔ رحمه اللہ۔ والمراد "بالضروریات ط علی ما اشتهر فی الکتب: ما علم کونه من دین محمد - صلی اللہ علیه وسلم - بالضرورة، بأن تواتر عنه واستفاض، وعلمته العامة، کالوحدانیة، والنبوة، وختمها بخاتم الأنبیاء، وانقطاعها بعدہ... وکالبعث والجزاء، ووجوب الصلاة والزکاة، وحرمة الخمر ونحوها، سمي: ضروریاً، لأن کل أحد یعلم أن هذا الأمر مثلاً من دین النبي - صلی اللہ علیه وسلم - ... فالضرورة فی الثبوت عن حضرة الرسالة، وفي کونه من الدین."

(إکفار الملحدین فی ضروریات الدین ص: 3، الناشر: المجلس العلمی - باکستان)

۲۔ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اور یہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے، اس کا منکر کافر ہے، باقی رہی بات مذکورہ کتب کی، تو اس میں اکفار الملحدین میں حضرت علامہ مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے اس بات کی صراحت کی ہےکہ  قربِ قیامت میں نزولِ عیسی علیہ السلام پر تمام امت کا اجماع ہوچکا ہے؛ لہذا اب  نزولِ عیسی علیہ السلام کے عقیدہ میں تاویل یا تحریف دونوں موجبِ کفر ہے۔ 

اسی طرح مولانا امیں صفدر اوکاڑی رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت سے بھی یہی معلوم ہورہا ہے کہ حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ ضروریاتِ دین میں سے ہے، اور اس کا منکر یا اس میں باطل تاویل کرنے والا اہلِ سنت سے خارج ہے۔

رہی بات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ کہ انہوں نے امداد الفتاویٰ میں یہ لکھا ہے کہ اس عقیدہ میں تاویل کرنےوالا کافر نہیں ہے، تو وہ حضرت حکیم الامت نے غالباًاس آیت

"إِذْ قَالَ ٱللَّهُ يَٰعِيسَىٰٓ إِنِّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَجَاعِلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوكَ فَوْقَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۖ ثُمَّ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ."

ترجمہ:’’جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے عیسی (کچھ غم نہ کرو) بے شک میں تم کو وفات دینے والا ہوں، اور (فی الحال) میں تم کو اپنی طرف اٹھائے لیتا ہوں، اور تم کو ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں، جو منکر ہیں، اور جو لوگ تمہارا کہنا ماننے والے ہیں، ان کو غالب رکھنے والا ہوں، ان لوگوں پر جو کہ (تمہارے) منکر ہیں روزِ قیامت تک۔ پھر میری طرف ہوگی ان سب  کی واپسی، سو میں تمہارے درمیان(عملی) فیصلہ کردوں گا ان امور میں جن میں تم باہم اختلاف کرتے تھے۔‘‘

(از: بیان القرآن، ج: 1، ص: 240، ط: مکتبہ رحمانیہ)

کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ یہ آیت قطعی الثبوت بھی ہے اور اپنے معنی میں قطعیٰ الدلالۃ بھی ہے، اور اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پورا پورا آسمانوں پر اٹھالیا تھا، اور پھر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام قربِ قیامت میں دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے، اور دشمنوں پر فتح پائیں گے، اس کے بعد ان پر طبعی موت بھی واقع ہوگی، آیت کے سیاق و سباق میں کچھ تقدیم و تاخیر ہے، جیسا کہ تفسیر در منثور میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت اس طرح منقول ہے:

"وأخرج إسحاق بن بشر، و ابن عساكر من طريق جوهر عن الضحاك عن ابن عباس في قوله: {إني متوفيك ورافعك} يعني رافعك ثم متوفيك في آخر الزمان."

اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ" توفي"کے معنی موت ہی کے ہیں، مگر الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے، "رافعك" کا پہلے اور "متوفیك" کا وقوع بعد میں ہوگا، اور موقع پر "متوفیك" کو مقدم ذکر کرنے کی حکمت و مصلحت اس پورے معاملے کی طرف اشارہ کرنا ہے جو آگے آنے والا ہے، یعنی یہ اپنی طرف بلا لینا ہمیشہ کے لیے نہیں، چند روزہ ہوگا اور پھر اس دنیا میں آئیں گے اور دشمنوں پر فتح پائیں گے،اور بعد میں طبعی طور پر آپ کی موت واقع ہوگی، اس طرح دوبارہ آسمان سے نازل ہونے اور دنیا پر فتح پانے کے بعد موت آنے کا واقعہ ایک معجزہ بھی تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کے اعزاز و اکرام کی تکمیل بھی، نیز اس میں عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت کا ابطال بھی تھا، ورنہ ان کے زندہ آسمان پر چلے جانے کے واقعہ سے ان کا عقیدہ باطل اور پختہ ہوجاتا کہ وہ بھی خدا تعالی کی طرح حی قیوم ہے، اس لیے پہلے "متوفیك" کا لفظ ارشاد فرمایاکہ ان تمام خیالات کا ابطال کردیا ، پھر اپنی طرف بلانے کا ذکر فرمایا‘‘۔

(معارف القرآن، ج: 2، ص:   73 تا 75، ط: مکتبہ معارف القرآن)

حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ علیہ نے اس آیت کے متعلق یہ بات خصوصی طور پر ذکر کی ہے کہ اگر کوئی شخص اس آیت کو قطعی الثبوت تو مانے، لیکن اس آیت کو غیر قطعی الدلالۃ قرار د ےکر اس آیت کے مفہوم میں کسی قسم کی باطل اور جمہور سے ہٹ کر تاویل کرے،  اور اس تاویل کی بناء پر  وفاتِ عیسیٰ علیہ السلام کا اعتقاد رکھے،تو اس تاویل کرنے کی وجہ سے وہ شخص مبتدع اور ضال (گمراہ ) شمار ہوگا؛ کیوں کہ اس کی یہ تاویل جمہور علمائے امت کے خلاف اور اس سے ہٹ کر ہے، نیز اگر کوئی شخص اس آیت کے قطعی الثبوت ہونے کا ہی انکار کر بیٹھے، اور اس وجہ سے وفاتِ عیسی علیہ السلام کا معتقد ہو، تو پھر اس صورت میں وہ دائرہ اسلام سےہی  خارج ہی شمار ہوگا۔ 

خلاصہ یہی نکلا کہ حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ علیہ کے قول کے مطابق بھی وفاتِ عیسی علیہ السلام کا اعتقاد رکھنے والا دائرہ اسلام سے خارج شمار ہوگا، باقی ان کا مذکورہ سوال و جواب ایک خاص آیت کو غیر قطعی الدلالۃ قرار دے کر اس آیت کے مفہوم مراد لینے کے ساتھ خاص ہے۔

باقی اگر تدبر اور تفکر سے دیکھا جائے، تو تینوں حضرات کی رائے میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیوں کہ حضرت انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ اور حضرت مولانا امیں صفدر اوکاڑی علیہ الرحمہ دونوں حضرات نے حیاتِ عیسی علیہ السلام کے متعلق عمومی اور مطلق بات تحریر کی ہیں کہ اگر کوئی حیاتِ عیسی علیہ السلام میں تاویل کرے، یا نزولِ عیسی علیہ السلام کے عقیدہ میں کسی قسم کی تاویل یا تحریف کرے، تو وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے، البتہ دونوں حضرات نے حکم لگانے میں الفاظ مختلف استعمال کیے ہیں، لیکن دونوں کا مفہوم و مصداق مایؤول کے اعتبار سے ایک ہی ہے، یعنی حضرت مولانا انور شارکشمیری رحمہ اللہ علیہ نے صراحۃً کافر فرمایاہے، جیسا کہ ان کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہورہاہے:

"انه قد تواتر وانعقد الإجماع علی نزول عیسی بن مریم عليه السلام، فتاویل ھذہ و تحریفه کفر ایضا."

البتہ حضرت مولانا امیں صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ علیہ نے صراحۃً کافر نہیں فرمایا ہے، بلکہ یہ فرمایا کہ :

’’اور کچھ عقائدواعمال ضروریات اہل سنت والجماعت کے درجہ میں ہیں، اس سے وہ عقائد و اعمال مراد ہیں، جو قرن ثانی و ثالث میں عوام و خواص میں مشہور ہو گئے، جن کی آسان پہچان یہ ہے کہ ان پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہو، جیسے: پہلی تکبیر کی رفع یدین ، حیات عیسیٰ،۔۔۔،وغیرہ ان مسائل کو ضروریات اہل سنت کہتے ہیں،  ان مسائل کو اسی مفہوم کے مطابق ماننا جس طرح مانتے ہیں، ان میں سے کسی کے انکار یا باطل تاویل کرنے سے انسان اہل سنت سے نکل کر اہل بدعت میں شامل ہو جاتا ہے۔‘‘

یعنی صراحۃً کفر نہیں کہا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ علیہ نے صرف عقیدہ حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کو اس محل میں بیان فرمایا ہےکہ اس عقیدہ(حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام) پر تمام امت کا اجماع ہوچکا ہے، اور قرآنِ کریم کی نص سے صراحت کےساتھ یہ بات معلوم ہورہی ہے، اسی طرح بے شمار احادیثِ مبارکہ حیاتِ عیسی علیہ السلام کی واضح دلیل ہے۔

البتہ حضرت مولانا امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ علیہ نے اس مقام میں ضروریاتِ دین میں سے کچھ کو شمار فرمایاہے، اوراس کے تحت اہلِ سنت والجماعت کے مجمع علیہ عقائد میں سے کچھ عقائد کو بطورِ مثال بیان فرمایا ہے، تو وہاں پر حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ علیہ ایک عمومی بات بیان فرمارہے ہیں، اور کافی عقائد کا تذکرہ فرمارہے ہیں، اسی لیے عقائد بیان کرنے کے بعد اس کے منکر پر حکم لگانے کے دوران سخت الفاظ کو استعمال نہیں فرمایا، اور صراحۃً کفر  نہیں فرمایا ہے،بلکہ یہ فرمایاکہ ان تمام عقائد میں کسی  کا انکار یا باطل تاویل کرنے سے انسان اہلِ سنت سے نکل کر اہلِ بدعت میں شامل ہوجاتا ہے، لیکن اس سے یہ بات بھی مصرح نہیں ہورہی کہ حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کا منکر کافر نہیں ہے۔

باقی حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ نےعقیدہ حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام سے ہٹ کر  آیتِ مذکورہ کی تاویل اور اس کے قطعی الدلالۃ ہونے کے پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بحث فرمائی ہے کہ اس آیت کےقطعی الثبوت کا منکر تو بہر صورت کافر ہی ہے، البتہ اگر کوئی شخص آیت کے قطعی الدلالۃ کو غیر قطعی الدلالۃ قرار دے کر پھر اس آیت کے مفہوم میں جمہور سے ہٹ کر کچھ ایسی تاویل کرے،اور اس باطل تاویل کی بناء پر ہی وہ شخص وفاتِ عیسیٰ علیہ السلام کا معتقد ہو، تو اس باطل تاویل کرنے کی  وجہ سے  وہ شخص  گمراہ ہوگا۔

حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ [اہلِ اسلام کے اجماعی عقیدہ کی وضاحت میں] لکھتے ہیں کہ:
"یہودیوں کایہ کہناہے کہ عیسیٰ علیہ السلام مقتول ومصلوب ہوکر دفن ہوگئے اور پھر زندہ نہیں ہوئے اور ان کے اس خیال کی حقیقت قرآن کریم نے سورۂ نساء کی آیت:"وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمۡۚ"میں واضح کردی ہے اور اس آیت میں بھی ’وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰه‘‘ ۔۔۔۔۔ نصاریٰ کا کہنا یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام مقتول ومصلوب تو ہوگئے، مگر پھر دوبارہ زندہ کر کے آسمان پر اُٹھالیے گئے۔ مذکورہ آیت میں ان کے اس غلط خیال کی بھی تردید کردی اور بتلادیا کہ جیسے یہودی اپنے ہی آدمی کو قتل کرکے خوشیاں منارہے تھے، اس سے یہ دھوکہ عیسائیوں کوبھی لگ گیا کہ قتل ہونے والے عیسیٰ ؑ ہیں، اس لیے ’’شُبِّہَ لَہُمْ‘‘ کے مصداق یہود کی طرح نصاریٰ بھی ہوگئے۔ ان دونوں گروہوں کے بالمقابل اسلام کا وہ عقیدہ ہے جو اس آیت اور دوسری کئی آیتوں میں وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دینے کے لیے آسمان پر زندہ اُٹھالیا۔ نہ ان کو قتل کیا جاسکا، نہ سولی پر چڑھایا جاسکا، وہ زندہ آسمان پر موجود ہیں اور قربِ قیامت میں آسمان سے نازل ہوکر یہودیوں پر فتح پائیں گے اور آخر میں طبعی موت سے وفات پائیں گے۔"

(معارف القرآن ،ج: ۲،ص:۷۸-۷۹) 

    حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسی عقیدہ پر تمام اُمتِ مسلمہ کااجماع نقل کیاہے۔ (تلخیص الحبیر:۳۱۹) 
    امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اس معاملہ میں متواتر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قبلِ قیامت نازل ہونے کی خبر دی ہے۔"

(نووی شرح مسلم، ج:۲، ص:۴۰۳۔ تفسیر ابن کثیر: تحت آیت :’’وَإِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ‘‘۴۳:۶۱)

نیزعصر حاضرکے علمائے عرب کا فیصلہ بھی اسی کے موافق ہے:

"ذھب أہل السنۃ والجماعۃ إلی أن المسیح عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام لم یزل حیاً، وأن اللّٰہ رفعہٗ إلی السماء وأنہٗ سینزل آخر الزمان عدلاً یحکم بشریعۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ویدعوا إلٰی ماجاء بہٖ من الحق ، وعلٰی ذٰلک دلت نصوص القرآن والأحادیث الصحیحۃ۔"

  (فتاویٰ علماء البلدالحرام، ص:۴۶۰، طبع: ریاض سعودی عرب) 

باقی حیاتِ عیسی علیہ السلام کے متعلق مزید تشفی کےلیے مندرجہ ذیل کتب کی طرف مراجعت کرلیجیے:

الف: حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ علیہ کی تصنیف’’ نزول عیسیٰ و ظہور مہدی‘‘ کا مطالعہ فرمالیا جائے۔

ب: علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ علیہ کی تصنیف ”التصریح بما تواتر فی نزول المسیح“ میں اس موضوع پر مکمل بحث موجود ہے۔

۳۔ واضح رہے کہ ’’صاحب‘‘ کا معنیٰ ہوتا ہے، ’’ساتھی، ساتھ دینے والا‘‘ ،

(از: القاموس الوحید)

لیکن ہمارے عرف میں یہ لفظ معزز لوگوں کے ناموں کے ساتھ بطورِ تعظیم و اکرام استعمال ہوتاہے، اور مرزا ملعون اس قابل نہیں ہے کہ اس کے نام کے ساتھ لاحق و سابق میں کسی بھی قسم کے تعظیمی الفاظ کا استعمال ہو، اسی لیے اس کے نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘کا لفظ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔

۴۔’’المامور من اللہ‘‘ کا مطلب ہے کہ وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا ہو، مرزا غلام احمد قادیانی کے نام  قادیانی گروپ والے جس معنیٰ اور عقیدہ کے پیشِ نظر ’’المامور من اللہ‘‘ کہتے اور سمجھتے ہیں، وہ عقیدہ ہی انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتاہے، کیوں کہ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا ہے، اور وہ بھی نعوذ باللہ نبی ہے، جو سراسر عقیدۂ ختم نبوت کے منافی ہے؛ لہذا جو شخص یہ عقیدہ رکھتے ہوئے اس ملعون کے نام کے ساتھ ’’المامور من اللہ‘‘ لگائے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، البتہ مذکورہ عقیدہ نہ ہوتے  ہوئے بھی بلا سمجھے ویسی ہی اس لفظ کا استعمال ملعون مرزا غلام قادیانی کے نام کے ساتھ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل (تفسیرِ زمخشری) میں ہے:

"وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ. "

 (سورۃ ھود: 113)

قرئ: ولا تركنوا، بفتح الكاف وضمها مع فتح التاء. وعن أبى عمرو: بكسر التاء وفتح الكاف، على لغة تميم في كسرهم حروف المضارعة إلا الياء في كل ما كان من باب علم يعلم. ونحوه قراءة من قرأ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ بكسر التاء. وقرأ ابن أبى عبلة: ولا تركنوا، على البناء للمفعول، من أركنه إذا أماله، والنهى متناول للانحطاط في هواهم، والانقطاع إليهم، ومصاحبتهم ومجالستهم وزيارتهم ومداهنتهم، والرضا بأعمالهم، والتشبه بهم، والتزيي بزيهم، ومدّ العين إلى زهرتهم. وذكرهم بما فيه تعظيم لهم".

(سورة الهود، رقم الآية:113، ج:2، ص:433، ط:دارالكتاب العربي)

تفسیرِ طبری میں ہے:

" {إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا}.

حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا عبد الله بن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع في قوله:"إني متوفيك"، قال: يعني وفاةَ المنام، رفعه الله في منامه = قال الحسن: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لليهود:"إن ‌عيسَى ‌لم ‌يمتْ، وإنه راجعٌ إليكم قبل يوم القيامة.

وقال آخرون: معنى ذلك: إني قابضك من الأرض، فرافعك إليّ، قالوا: ومعنى"الوفاة"، القبض، لما يقال:"توفَّيت من فلان ما لي عليه"، بمعنى: قبضته واستوفيته. قالوا: فمعنى قوله:"إني متوفيك ورافعك"، أي: قابضك من الأرض حيًّا إلى جواري، وآخذُك إلى ما عندي بغير موت، ورافعُك من بين المشركين وأهل الكفر بك."

(آل عمران، الأیۃ: 55، ج: 6، ص: 455)

اکفارالملحدین میں ہے:

"وثانیها: إجماع الأمّة علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورة."

(مجموعة رسائل الکاشمیري، ج: 3، ص: 81، ط: ادارة القرآن)

المسوی شرح المؤطا میں ہے:

" و إن اعترف به أي الحق ظاهرًا لكنه یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة و التابعون و اجتمعت علیه الأمّة فهو الزندیق."

(المسوی شرح المؤطا، ص: 13، ط: رحیمیة. دہلی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں