بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ضرورت سے زیادہ تعمیر پر خرچ کرنے والا مال


سوال

کیا کسی حدیث میں یہ ہے کہ بدترین مال ہے وہ جو تعمیر میں استعمال ہو؟

جواب

واضح رہے کہ ضرورت کے بقدر تعمیرات میں گناہ نہیں ہے، بلکہ حدیث میں جو بد ترین مال تعمیرات میں استعمال ہونے پر کہا گیا ہے وہ ضرورت سے زیادہ تعمیرات پر ہے، یا جس تعمیر پر فخر و مباہات ہو وہ مذموم ہے۔ 

حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں:

’’ اگرکوئی شخص بقدرِ ضرورت مکان بنوالے جس میں اسراف و تفاخر نہ ہو تو کوئی حرج نہیں اور یہ ہرشخص خود سمجھ سکتا ہے کہ اس کو کتنا مکان ضروری ہے؛ کیوں کہ لوگوں کے درجات مختلف ہیں اور انہیں درجات کے لحاظ سے ضروریات بھی مختلف ہیں، کسی کو ایک حجرہ آسائش و راحت کے لیے کافی ہوجاتاہے اور کسی کو ایک بڑا مکان بھی مشکل سے کافی ہوتاہے۔ بہرحال ہرشخص اپنی ضرورت کو خود ہی سمجھ سکتاہے۔ ہاں ضرورت سے آگے ایک درجہ آرائش کاہے وہ بھی جائزہے، بشرطیکہ اس میں اسراف اور حدود شرعیہ سے تجاوز نہ ہو اور نہ قصد عجب و فخر کا اختلاط ہو؛ کیوں کہ یہ درجہ نمائش کاہے جو کہ ناجائزہے۔‘‘

(خطبات حکیم الامت،ج:4ص:428)

معارف القرآن میں حضرت شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

{اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ  وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ}

اس آیت سے ثابت ہوا کہ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اور تعمیرات کرنا شرعًا برا ہے اور یہی معنی ہیں اس حدیث کے جو امام ترمذی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ "النفقة کلّها في سبیل الله إلّا البناء فلا خیر فیه"، یعنی وہ عمارت جو ضرورت سے زائد بنائی گئی ہو اس میں کوئی بہتری اور بھلائی نہیں اور اس معنی کی تصدیق حضرت انس کی دوسری  روایت سے بھی ہوتی ہے کہ "إنّ کلّ بناء وبال علی صاحبه إلّا ما لا، إلّا ما لا یعني: إلّا ما لا بدّ منه."(ابو داؤد) یعنی ہر تعمیر صاحبِ تعمیر کے لیے مصیبت ہے، مگر وہ عمارت جو ضروری ہو وہ وبال نہیں ہے۔ روح المعانی میں فرمایا کہ بغیر غرضِ صحیح کے بلند عمارت بنانا شریعتِ محمدیہ میں بھی مذموم اور برا ہے۔"

روح البيان (6/ 295):

"ريع الأرض للزيادة والارتفاع الحاصل منها {آيَةً} بناءً عاليًا متميزًا عن سائر الأبنية حال كونكم {تَعْبَثُونَ} ببنائه فإنّ بناء ما لا ضرورة فيه و ما كان فوق الحاجة عبث -روى- أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج فرأى قبةً مشرفةً فقال: (ما هذِهِ) قال له أصحابه: هذه لرجل من الأنصار فمكث وحملها في نفسه حتى إذا جاء صاحبها رسول الله فسلّم في الناس اعرض عنه وصنع به ذلك مرارًا حتى عرف الرجل الغضب فيه والإعراض عنه فشكا ذلك إلى أصحابه فقال: والله إني لأنكر نظر رسول الله ما أدرى ما حدث فيّ و ما صنعت!؟ قالوا: خرج رسول الله فرأى قبتك فقال: لمن هذه فاخبرناه فرجع الى قبته فسواها بالأرض فخرج النبي عليه السلام ذات يوم فلم ير القبة فقال: (ما فعلت القبة التي كانت هاهنا) قالوا: شكا إلينا صاحبها اعراضك عنه فاخبرناه فهدمها فقال: (إنّ كلّ بناء يبنى و بال على صاحبه يوم القيامة إلا ما لا بدّ منه) هذا ما عليه الإمام الراغب وصاحب كشف الأسرار وغيرهما وقال فى الجلالين ونحوه."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144205201099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں