بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ضرورت مند عباسی خاندان کو زکوٰۃ دینا


سوال

اگر عباسی فيملي كو زكوة ديني هو تو كيسے دے سكتے هيں؟ انهيں بهت ضرورت هے پيسے كي، همارے پاس هديه دينے کے پیسے نہیں  اور نہ ہی کسی اور طریقہ سے ہم ان کی مدد کرسکتے ہیں؟

جواب

عباسی خاندان سادات میں سے ہے، اور سید کو زکات دینا اور اس کا زکات لینا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

’’یہ صدقات  (زکات اور صدقاتِ واجبہ ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اَموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘

«إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لاتحلّ لمحمد، ولا لآل محمد».

(صحيح مسلم (2/ 754)

اگر سید غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی امداد زکات اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں  اور یہ بڑا اجر و ثواب کا کام ہے اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دلیل ہے، اور ان شاء اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے: 

"ارقبوا محمداً في أهل بيته"

یعنی رسولِ اقدس ﷺ کے اہلِ بیت کا لحاظ وخیال کرکے نبی کریم ﷺ کے حق کی حفاظت کرو۔

البتہ اگر کسی طرح بھی کوئی صورت نہ بن رہی اور بہت سخت ضرورت ہو تو  زکات کی رقم  کسی غیر سید،  مستحقِ زکات شخص  کو مالک بنا کردی  جائے،اس سے زکات ادا ہوجائے گی، اور پھر اس شخص کو   اس عباسی شخص کی حالت و ضرورت بتادی جائے، اور ترغیب دے دی جائے، لیکن اسے مجبور نہ کیا جائے نہ اس پر دباؤ ڈالا جائے، اگر وہ خوشی سے عباسی کو دے دے تو عباسی شخص کے لیے اس رقم کا استعمال کرنا جائز ہوگا، کیوں کہ ملکیت کے تبدیل ہونے سے وہ رقم زکات نہیں رہے گی، بلکہ غیر سید فقیر کی طرف سے عباسی کے لیے ہدیہ ہوگی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (2/ 265):

" (قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة»".

الفتاوى الهندية (1/ 189):

’’ولايدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 350):

’’(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي صلى الله عليه وسلم أعقب أربعةً وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعةً، انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب؛ فإنه أعقب اثني عشر، تصرف الزكاة إلى أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل، قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لا ينبغي؛ إذ لاتحرم عليهم كلهم، بل على بعضهم، ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضاً إلى هاشم، وتحل لهم الصدقة. اهـ.

وأجاب في النهر بقوله: وأقول: قال في النافع بعد ذكر بني هاشم: إلا من أبطل النص قرابته يعني به قوله صلى الله عليه وسلم: «لا قرابة بيني وبين أبي لهب؛ فإنه آثر علينا الأفجرين»، وهذا صريح في انقطاع نسبته عن هاشم، وبه ظهر أن في اقتصار المصنف على بني هاشم كفاية، فإن من أسلم من أولاد أبي لهب غير داخل؛ لعدم قرابته، وهذا حسن جداً، لم أر من نحا نحوه، فتدبره. اهـ‘‘.

 فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144203200597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں