میرے پاس ایک پلاٹ ہے ، اس کو بیچ کر اپنی ضرورت پوری کروں گا مثلا مکان خریدنا ہے بچوں کی شادیاں کرنی ہے، کیا اس پلاٹ کی مالیت پر زکاۃ ادا کرنی ہے؟
واضح رہے کہ پلاٹ پر زکوۃ کے وجوب سے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جو پلاٹ تجارت (قیمت بڑھاکر بیچنے ) کی نیت سے خریدا جائے اُس پر زکات واجب ہوتی ہے اور جو پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا جائے اُس پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی ؛لھذا صورت مسئولہ میں اگر آپ نے پلاٹ اسی نیت سے خریدا ہے کہ قیمت بڑھاکر بیچ دوں گا تو یہ تجارتی پلاٹ ہے ؛ اس لیے سال گزرنے پر اس پلاٹ کی زکاۃ ادا کرنا آپ پر لازم ہوگا۔ زکاۃ مارکیٹ ریٹ (مارکیٹ میں اس پلاٹ کی موجودہ قیمت) کے اعتبار سے ادا کی جائے گی؛ البتہ اگر پلاٹ خریدتے وقت آپ کی نیت اس کو بیچ کر اپنی کوئی ضرورت ( مثلًا بچوں کی شادی یا رہائشی مکان کی خریداری)پوری کرنی ہےتو اس صورت میں چوں کہ تجارتی نیت نہیں ہے ؛ اس لئے بعض علمائے کرام کی رائے میں زکاۃ نہیں آئے گی اور بعض کی رائےاس صورت میں بھی بیچنے کی نیت پائے جانے کی وجہ سے زکاۃ کے وجوب کی ہے اور احتیاط اسی میں ہے کہ زکاۃ دے دے ۔
الموسوعة الفقهية الكويتية (23/ 271):
" اتفق الفقهاء على أنه يشترط في زكاة مال التجارة أن يكون قد نوى عند شرائه أو تملكه أنه للتجارة، والنية المعتبرة هي ما كانت مقارنةً لدخوله في ملكه؛ لأن التجارة عمل فيحتاج إلى النية مع العمل، فلو ملكه للقنية ثم نواه للتجارة لم يصر لها، ولو ملك للتجارة ثم نواه للقنية وأن لايكون للتجارة صار للقنية، وخرج عن أن يكون محلاً للزكاة ولو عاد فنواه للتجارة لأن ترك التجارة، من قبيل التروك، والترك يكتفى فيه بالنية كالصوم". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108201146
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن