میری خالہ کی بیٹی عدت میں ہے، ان کا ایک چھبیس سالہ بیٹا ہے، جس نے اپنی والدہ کی خالہ کے بیٹے جن کی عمر پینسٹھ برس ہے پر ہاتھ اٹھایا، جس پر ہاتھ اٹھایااس کے پینتیس سالہ بیٹے اور چالیس سالہ بہن کے داماد نے اس کو چھڑایا، اس کے بعد ہاتھ اٹھانے والے نے الزام لگایا کہ داماد اور بیٹے نے بہت مارا ہے، اس کی والدہ جو کہ عدت میں ہیں کا کہنا ہے میرے گھر چار کزن جو کہ نامحرم ہیں آکر بڑوں میں بیٹھ کر بات کریں اور معاملہ سلجھائیں، میں دوسرے کمرے میں بیٹھ کر بات سنوں گی، تو کیایہ نامحرم جاسکتے ہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں آپ کی خالہ کی بیٹی کو چاہئے کہ اپنے خاندان کے کسی مرد کے ذریعہ اس تنازعہ کا تصفیہ کرائے ،اگر کوئی مرد ہی نہ ہویا مرد تو ہو لیکن یہ خاتون خود تصفیہ میں شامل ہونا چاہتی ہوتو فریق مخالف کو اپنے گھر میں بلاکرپردے میں رہتے ہوئے ان سے ضرورت کی حد تک بات چیت کرسکتی ہے، نیز نامحرم سے بلاضرورت بات چیت کرنے کی ممانعت صرف عدت کے ساتھ خاص نہیں ہے، ہرحال میں عورت کا نامحرم سے بلاضرورت بات چیت کرنا جائز نہیں ہے اورضرورت کے وقت نامحرم سے بات چیت کرنا جائز ہے اگرچہ عورت عدت میں کیوں نہ ہو۔
فتاوى شامی میں ہے :
"فإنا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك"ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة.اھ"
(کتاب الصلاۃ ،مطلب : في ستر العورۃ ،ج :2 ، ص:97،ط: رشیدیه)
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:
"إذا كان مبعث الأصوات هو الإنسان، فإن هذا الصوت إما أن يكون غير موزون ولا مطرب، أو يكون مطربا.
فإن كان الصوت غير مطرب، فإما أن يكون صوت رجل أو صوت امرأة، فإن كان صوت رجل: فلا قائل بتحريم استماعه أما إن كان صوت امرأة، فإن كان السامع يتلذذ به، أو خاف على نفسه فتنة حرم عليه استماعه، وإلا فلا يحرم، ويحمل استماع الصحابة رضوان الله عليهم أصوات النساء حين محادثتهن على هذا، وليس للمرأة ترخيم الصوت وتنغيمه وتليينه، لما فيه من إثارة الفتنة، وذلك لقوله تعالى: {فلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض}."
(أنواع الاستماع، استماع صوت المرأة، ج:4، ص:90، ط:دارالسلاسل - الكويت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144512101039
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن