کیا کسی نا محرم سے دینی معاملے کے بارے میں بات کرنا یا اگر وہ کسی غلط گمان میں ہو تو اسے قرآن اور حدیث وغیرہ بتاناجائز ہے یا نہیں ؟جب کہ بات صرف دینی معاملے میں ہی ہو ، کوئی اور فالتو بات نہ ہو۔
صورت ِمسئولہ میں اگر کسی نامحرم سے بات چیت کی ضرورت ہو اور دینی یا دنیاوی مصالح اس پر موقوف ہوں تو شرعاًبقدرِ ضرورت ، پردے میں رہ کر ،لہجے میں سنجیدگی کے ساتھ نا محرم سے گفتگو کرنے کی اجازت ہے،خصوصًا عورت اپنے لہجے میں نرمی نہ لائے، اور جہاں ایسی کوئی ضرورت نہ ہو، وہاں گفتگو کی اجازت نہیں ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة."
(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ج:1، ص:285، ط:سعيد)
وفیہ ایضاً:
"إن الضرورة تتقدر بقدرها."
(كتاب النكاح، باب العدة، ج:3، ص:532، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507101904
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن