زکاۃ کے باب میں کہا جاتا ہے کہ ضرورتِ اصلیہ سے زائد مال پر زکاۃ واجب ہے، تو ضرورتِ اصلیہ سے کیا مراد ہے؟
ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔
اور ضرورت سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کی استعمال میں نہ ہوں، اور ہر انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہیں۔
لہذا جو چیزیں ان انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہے، لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ زکات نصاب کے بقدر اس مال پر واجب ہوتی ہے جو ضرورت سے زائد ہونے کے ساتھ ساتھ ’’نامی‘‘ بھی ہو، مال نامی سے مراد یہ ہے کہ سونا، چاندی،زیورات، نقدی، مالِ تجارت یا افزائش نسل کے لیے پالے ہوئے مویشی وغیرہ ہو۔ اگر مال نامی نہ ہو تو نصاب کے بقدر ہونے کے باوجود صرف ضرورت سے زائد ہونے کی وجہ سے زکات واجب نہیں ہوگی، البتہ ایسے شخص کے لیے زکاۃ وصول کرنا جائز نہیں ہوگا، نیز صدقہ فطر اور قربانی واجب ہوجائے گی۔
لدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312):
وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر).
(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110200466
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن