بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ضرورت مند لوگوں کا زکات کی رقم سے علاج کرنا


سوال

 ایک ادارہ  ایک ہسپتال بنانا چاہتا ہے،  جس میں مریضوں کا علاج،ڈاکٹر کی فیس زکوٰۃ و  صدقات سے  ادا کی   جائے گی،  سوال یہ ہے کہ کیا اگر زکوٰۃ کے پیسوں سے ڈاکٹر کی فیس ادارہ کاٹ لے اور مریض کو مفت معالج کی سہولت مہیا کرے یا دوا وغیرہ زکوۃ کی رقم سے وہ ہسپتال مریض کو دےدے تو کیا زکوٰۃ ادا کرنے والوں کی زکوۃ ادا ہوجائے گی؟  ہسپتال ایک کارڈ بناکر مریض کو دےدے اور اس کارڈ کے حامل کو علاج معالجہ  سب مفت میں ملے اور ادارہ  وہ تمام رقم زکوۃ کی رقم سے لے لے تو کیا زکوۃ ادا ہوجائے گی ؟

جواب

واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق ِ زکوٰۃ  شخص  (یعنی ایسا  غریب آدمی  جو نصاب کے بقدر رقم کا  مالک نہ ہو اور نہ ہی سید، ہاشمی اور عباسی ہو )  کو بغیر عوض کے مالک بناکر دینا  ضروری ہے، مستحق زکوٰۃ شخص کو  مالک بنائے  بغیر  زکوۃ ادا نہیں ہوتی۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ ہسپتال یا دیگر  رفاہی ادارے  زکوٰۃ دینے والے کی طرف سے وکیل اور امین ہوتے ہیں کہ وہ زکوٰۃ مستحق تک پہنچائیں گے ؛ لہذا ہسپتال کے قبضہ میں آنے سے زکوٰ ۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی،  بلکہ فقیر مسکین کی ملک میں جانے کے بعد ادا ہوتی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ جتنے کا علاج  اور ڈاکٹر کی فیس کا خرچہ ہوا ہے ، اتنی رقم کا پہلے مستحق شخص کو  مالک بنائے  یا مستحق مریض اپنا کوئی وکیل مقرر کرے اور ہسپتال انتظامیہ زکوٰۃ کی رقم اس وکیل کو دے، تو اس وکیل کا قبضہ موکل (مستحق مریض) کا قبضہ سمجھا جائے گا، اور  پھر اس سے اس علاج کی فیس کے طور پر رقم  وصول کرلے۔  البتہ زکوۃ کی رقم سے دوائی وغیرہ  خرید کر  مستحقِ زکوٰۃ مریض کو دینے سے زکوٰ ۃ ادا ہوجائے گی۔

نیز   یہ بھی  ضروری ہے زکوٰ ۃ کی رقم کسی بھی مریض کو دینے سے پہلے اس بات کی تسلی کر لی جائے کہ وہ شخص زکوٰ ۃ  کی رقم کا مستحق ہے،  اس  تحقیق میں کوتاہی  نہ کی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"«وشرعًا (تمليك)» خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم (جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه (عينه الشارع) وهو ربع عشر نصاب حولي.

(قوله:  فلو أسكن إلخ) عزاه في البحر إلى الكشف الكبير وقال قبله: والمال كما صرح به أهل الأصول ما يتمول ويدخر للحاجة، وهو خاص بالأعيان فخرج به تمليك المنافع."

(کتاب الزکوۃ ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۵۶،ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144204200551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں