بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ضرورت کی وجہ سے سودی قرضہ لینے کا حکم


سوال

ایک شخص دوسرے ملک میں رہتا ہے اور اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، کیا وہ شخص سودلےسکتا ہے؟

جواب

اگر سود لینے سے سائل کی مراد پیسے نہ ہونے کی صورت میں سودی قرضہ لینا ہے تو اس کاحکم یہ ہے کہ عام حالات میں سودی قرضہ لینا یا دینا قطعی حرام ہے،حدیث شریف میں ایسے شخص پرلعنت وارد ہوئی ہے،البتہ  اگر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بھوک سے مرجانے کا خوف ہو،یا عزت  کو شدید خطرہ ہو،  نیز اور کوئی صورت بھی اس سودی قرضے سے بچنے کی موجود نہ ہو  مثلاً:کوئی سامان،زیور یا جائیداد ہوجو کہ فروخت کی جاسکے،یا کوشش کرنے کے باوجود بھی بغیر سود کے قرضہ نہ مل رہا ہو،تو اس صورت میں وہ شرعاً معذور سمجھاجائےگا،اور بقدرِ ضرورت سودی قرضہ لینے کی گنجائش ہوگی۔

اور اگر ایسی ضرورت نہیں،  بلکہ کسی اور دنیوی کا روبار کے لیے ضرورت ہے،یا سود سے بچنے کا کوئی اور راستہ موجود ہے،تو اس صورت میں سودی قرضہ لیناجائز نہیں ہے،بلکہ کبیرہ گناہ اور حرام ہے۔

اور اگر سودی قرضہ مراد نہیں بلکہ سود لینے کے بارے میں سوال ہےتو اگر مذکورہ شخص مستحقِ زکاۃ ہے کہ اس کی ملکیت میں نصابِ چاندی کی مالیت کے برابر سونا،چاندی یا نقدی یاحوائجِ اصلیہ سے زائد مال نہ ہوتو پھر وہ مستحقِ زکاۃ ہے،اس کے لیے زکاۃ اور سودکامال لیناشرعاًجائز ہے،وگرنہ جائز نہیں۔

الأشباه والنظائر  میں ہے:

"وفي القنية والبغية: يجوز للمحتاج ‌الإستقراض ‌بالربح."

(ص:٧٩،الفن الأول،النوع الأول،القاعدۃ الخامسة،ط:دار الكتب العلمية)

غمز عيون البصائر  میں ہے:

"قوله: يجوز للمحتاج ‌الاستقراض ‌بالربح، وذلك نحو أن يقترض عشرة دنانير مثلا، ويجعل لربها شيئا معلوما في كل يوم ربحا."

(ص:٢٩٤،ج:١،الفن الأول،النوع الأول،القاعدۃ الخامسة،ط:دار الکتب العلمية)

رد المحتار على الدر المختارمیں ہے:

"باب ‌المصرف أي ‌مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن ‌فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة...

وهو ‌مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة."

(ص:٣٣٩،ج:٢،کتاب الزکاۃ،باب المصرف،ط:ایج ایم سعید)

’’فتاویٰ محمودیہ‘‘ میں ہے:

’’سوال : زید کو روپیہ کی اشد ضرورت پیش آئی اور اس نے بہ امر مجبوری اپنی جائیدادرہن رکھ کرسود پر روپیہ قرض لے لیا، ایسی حالت میں جب کہ سخت مجبوری کی حالت میں سود پر روپیہ لیا جائے تو اس کے لیےحکم کیا ہے اور کیا زید بحالت مجبوری اس فعل سے گناہ گار ہوگا یا نہیں ؟‘‘

الجواب حامدا ومصلياً:

’’سود دینا حرام ہے ، ایسے شخص پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے، حرام کا ارتکاب اضطرار کی حالت میں معاف ہے، پس اگر جان کا قوی خطرہ ہے، یا عزت کا قوی خطرہ ہے، نیز اور کوئی صورت اس سے بچنے کی نہیں ، مثلاً: جائیداد فروخت ہو سکتی ہے، نہ روپیہ بغیر سود کے مل سکتا ہے تو ایسی حالت میں زید شرعاً معذور ہے،اور اگر ایسی ضرورت نہیں بلکہ کسی اور دنیوی کاروبار کے ليے ضرورت ہے، یا روپیہ بغیر سود کے مل سکتا ہے، یا جائیداد فروخت ہو سکتی ہے تو پھر سود پر قرض لینا جائز نہیں ، کبیرہ گناہ ہے ۔ فقط واللہ اعلم۔‘‘

(ص:٣٠٥،ج:١٦،كتاب البيوع،باب الربوا،ط:ادارۃ الفاروق)

وفيه ايضا:

’’ البتہ اگر انسان کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ رہے اور بے حد درجے کی پریشانی ہو، اور بلا سود قرض نہ ملتا ہو تو بقد ر ضرورت سودی قرض لینے کی گنجائش ہے، ہر حالت میں خداوند قدوس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے، اس پر بھروسہ ہونا چاہیئے ، بجوز للمحتاج الاستقراض بالربح . كذافي الأشباه والنظائر، ص: ١١٥۔‘‘

(ص:٣٠٧،ج:١٦،كتاب البيوع،باب الربوا،ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں