بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زرعی بینک سے قرضہ لینے کا حکم


سوال

کیا زرعی بینک سے چار فیصد قرضہ لینا جائز ہے؟ جو کہ حکومت فصل پر خرچ کرنےکے لیے زمین دار کی مدد کے لیے دیتی ہے، اس پر اسلام کیا کہتا ہے؟

جواب

واضح رہے بینک خواہ روایتی ہو یا مروجہ غیرسودی ہو، ان تمام بینکوں کے تمویلی معاملات  سود پر مشتمل ہوتے ہیں، اور سود لینا اور دینا دونوں اسلام میں حرام ہے، قرآنِ مجید میں سودی لین دین کے معاملہ کو اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا گیا ہے جیسے کہ سورہ بقرہ میں ہے:

" اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو  اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طر ف سے اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر کوئی  ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔"

 (سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:278/79/88، ترجمہ:بیان القرآن )

نیز حدیث شریف میں بھی سود لینے اور دینے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے۔

بصورتِ مسئولہ زرعی بینک سے قرضہ لینا (خواہ کم ہو یا زیادہ ہو) شرعاً جائز نہیں ہے، کیوں کہ مذکورہ بینک قرضہ دیتے وقت یہ شرط لگاتی ہے کہ متعینہ مدت میں اگر قرضہ ادا نہیں کیا گیا تو قرضہ سود سمیت (یعنی اضافی رقم کے ساتھ) ادا کرنا ہوگا، لہذا مذکورہ معاملہ میں سودی معاہدہ پائے جانے کی وجہ سے قرضہ لینا ہی جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن".  

(5/166، مطلب کل قرض جر نفعًا، ط: سعید)

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي) میں ہے:

"قَوْلُهُ تَعَالَى: (فَلا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ) أَيْ غَيْرِ الْكُفْرِ. (إِنَّكُمْ إِذاً مِثْلُهُمْ) فَدَلَّ بِهَذَا عَلَى وُجُوبِ اجْتِنَابِ أَصْحَابِ الْمَعَاصِي إِذَا ظَهَرَ مِنْهُمْ مُنْكَرٌ، لِأَنَّ مَنْ لَمْ يَجْتَنِبْهُمْ فَقَدْ رَضِيَ فِعْلَهُمْ، وَالرِّضَا بِالْكُفْرِ كُفْرٌ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: (إِنَّكُمْ إِذاً مِثْلُهُمْ). فَكُلُّ مَنْ جَلَسَ فِي مَجْلِسِ «1» مَعْصِيَةٍ وَلَمْ يُنْكِرْ عَلَيْهِمْ يَكُونُ مَعَهُمْ فِي الْوِزْرِ سَوَاءً، وَيَنْبَغِي أَنْ يُنْكِرَ عَلَيْهِمْ إِذَا تَكَلَّمُوا بِالْمَعْصِيَةِ وَعَمِلُوا بِهَا، فَإِنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى النَّكِيرِ عَلَيْهِمْ فَيَنْبَغِي أَنْ يَقُومَ عَنْهُمْ حَتَّى لَا يَكُونَ مِنْ أَهْلِ هَذِهِ الْآيَةِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ [رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ «2»] أَنَّهُ أَخَذَ قَوْمًا يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، فَقِيلَ لَهُ عَنْ أَحَدِ الْحَاضِرِينَ: إِنَّهُ صَائِمٌ، فَحَمَلَ عَلَيْهِ الْأَدَبَ وَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ (إِنَّكُمْ إِذاً مِثْلُهُمْ) أَيْ إِنَّ الرِّضَا بِالْمَعْصِيَةِ مَعْصِيَةٌ، وَلِهَذَا يُؤَاخَذُ الْفَاعِلُ وَالرَّاضِي بِعُقُوبَةِ الْمَعَاصِي حَتَّى يَهْلَكُوا بِأَجْمَعِهِمْ."

(سورة النساء، رقم الآية:141/142، ج:5، ص:418، ط:المكتبة المصرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں