میرا پیشہ زرگر ی کا ہے ،بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گاہک سے یا کسی دوکان دار سے ہمارا سونا لینے یا بیچنے کا معاملہ طے پاجاتا ہے، ہم ریٹ بھی طے کر لیتے ہیں، لیکن موقع پر کیش یا سونا نہ ہونے کی وجہ سے کل کا وقت مانگ لیتے ہیں ،توکیا گاہک سے ایسا کرنا ہمارے لیے جائز ہو گا، ایسا کرنے کی گنجائش ہے ؟
۲۔ بعض اوقات دوکان دار سے (جن سے ہمارا سونے کا لین دین ہوتا ہے )تین دن یا ہفتہ کا بھی وقت مانگ لیتے ہیں اس کے بارے میں بھی رہنمائی فرما دیں ؟
۳۔ آپ صلي اللّٰه وسلم کے دور میں سونے چاندی کےزیورات کے معاملات اور خرید و فروخت ہوتی تھی ؟اور آپ صلي اللّٰه وسلم نے اس کے بارے میں حلال طریقہ کیا بتایا ؟
۴۔ صحابه كرام رضي اللّٰه عنهم اجمعين كے سونے چاندی کے زیورات کے لین دین کے بارے میں کیا کیا صورتیں پیش آئیں؟ اس بارے میں بھی رہنمائی فر ما ديں ۔
واضح رہے کہ موجودہ کرنسی نوٹ اصطلاحی ثمن ہے لہذا جو احکامات سونے اور چاندی کے ہیں وہی احکامات موجودہ کرنسی نو ٹ کے بھی ہیں، اس وجہ سے اگر موجودہ کرنسی نوٹ کے بدلے سونا یا چاندی خریدنی ہو تو یہ بیع صرف ہوگی، جس کی صحت کے لیے دونوں بدلین کا ایک مجلس میں قبض کرنا ضروری ہے ،اس بنیادی ضابطے کے بعد مذکورہ مسائل کے جوابات یہ ہیں :
۱۔ اگر مذکورہ صورت میں جانبین میں کسی عاقد نے کچھ نہ دیا ہو مثلا سنار نے سونا نہیں دیا اور گاہک نے پیسے نہیں دیے ،بلکہ صرف مذکورہ معاملے کا ایک دوسرےسے بات کی ہو تو اس صورت میں اس بات چیت کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ، بلکہ یہ صرف مذکورہ معاملہ کا دونوں فریق کی طرف سے وعدہ ہوسکتاہے ، جس سے عقد لازم نہیں ہوتا ،ا لبتہ جب پیسوں اور سونا ، چاندی حوالہ کرنے کے لیے جمع ہوں تو از سرنو ا یجاب وقبول کریں ۔
اگر مذکورہ صورت میں ایک جانب سے تو حوالہ ہوگیا ہو ،لیکن دوسری جانب سے نہیں ہوا ، مثلا گاہک نے پیسے تو ادا کردیے ، لیکن سنار نے سونا کل دینے کے لیے کہا یا اس کے برعکس ہو ا تو یہ صورت ناجائزہے، اس صور ت میں عقد کے شرعا ًصحیح ہونے کی صورت یہ ہوگی کہ جب کل دونوں پھر اکھٹے ہوں ،تو مذکورہ پیسے یا سونا اس کو واپس کر کے از سر نو معاملہ کرلیں۔
۲۔ مذکورہ صور ت کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر دوکان دار سے سونا نہیں اٹھایا ، بلکہ صرف اتنا کہا ہو کہ میرے لیے اتنے تولے سونا یا چاندی رکھ دو ، تو یہ صرف وعدہ بیع نہیں ہے جس کی پابندی کا شریعت دونوں کو درس دیتی ہے ،لیکن اس سے شرعاً عقد نافذ نہیں ہوتا، اوراگر سائل نے سونا یاچاندی پر قبضہ کیا ہو اور پیسے تین دن یا ہفتے کے بعد دے تو یہ صورت بھی ناجائزہے۔
۳، ۴ ۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانے میں چوں کہ موجودہ کرنسی نہیں تھی ، بلکہ عام طور پر معاملات سونے چاندی کے سکوں کے ذریعے طے پاتے تھے ، اس لیے سونا اور چاندی کا کاروبار آج کل کے بنسبت اس وقت زیادہ ہوتاتھا ، اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں سونے اور چاندی کے کاروبار کے لیے کچھ اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں ، وہ یہ ہیں کہ :
أ) اگر سونے کو سونے کے بدلے میں خریدنا ہو یابیچنا ہو تو اس صورت میں دونوں میں برابری ضروری ہے اور ہاتھ در ہاتھ ہونا بھی ضروری ہے ۔
ب) اگر سونے کو چاندی کے میں خریدنا ہو یا بیچنا ہو یا اس کے عکس تو اس صورت میں برابری توضروری نہیں ، لیکن ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے۔
جہاں تک زیورات کا کاروبارکرنے کی بات ہے تو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے زمانے میں مذکورہ کاروبار ہوتا تھا ، اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن بھی زیورات زیب تن فرمایا کرتی تھیں ، لیکن اس کاروبار کو نہ نبی کریم ﷺ نے کیا ہے اور نہ صحا بہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا اس کاروبار کو کرنے کے متعلق کتب تاریخ میں کچھ مل سکا ، بلکہ یہ بات ملتی ہے کہ اس زمانے میں یہ کام زیادہ تر یہود کرتے تھے ۔
البتہ کتب تاریخ میں یہ بات ملتی ہے کہ’’ ابو رافع نقیع ‘‘مذکورہ کاروبار کرتے تھے ، اس وجہ سے موصوف ’’الصائغ‘‘(سنار) کےلقب سے مشہور ہوئے ، ابورافع نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی موجود تھے ،لیکن ایمان آپ ﷺ کے رحلت فرمانے کے بعد لائے ، اس وجہ ان کو تابعی کہا جاتا ہے صحابی نہیں ۔
بخاری شریف میں ہے:
"قال أبو بكرة - رضى الله عنه - قال رسول اللَّه - صلى الله عليه وسلم- لا تبيعوا الذّهب بالذّهب إلاّ سواء بسواء والفضّة بالفضّة إلاّ سواء بسواء وبِيعوا الذّهب بالفضّة والفضّة بالذّهب كيف شئتمْ."
(أخرجه البخاري في صحيحه، كتاب البيوع، باب بيع الذهب بالذهب، رقم الحديث: 2215، ج:1، ص:403، ط: جمعية المكنز الإسلامي)
ترجمہ :
’’حضرت ابو بکر نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سونا سونے کے بدلہ میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے) برابر برابر نہ ہو، اسی طرح چاندی چاندی کے بدلہ میں اس وقت نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر نہ ہو، البتہ سونا چاندی کے بدلہ میں اور چاندی سونے کے بدلہ میں جس طرح چاہو بیچ سکتے ہو۔‘‘
(ترجمہ از تفہیم البخاری ، مؤلف: مولانا ظہور الباری ، ج: ۱ ، ص:۹۳۴،ط :دار الاشاعت)
وفيه أيضأ:
"عن أبى سعيد الخدرىّ - رضى الله عنه - أنّ رسول اللَّه - صلى الله عليه وسلم- قال لا تبيعوا الذّهب بالذّهب إلاّ مثْلا بمثل ولا تشفّوا بعْضها على بعْض ولا تبيعوا الورق بالورق إلاّ مثلا بمثل ولا تشفّوا بعْضها على بعْض ولا تبيعوا منْها غائبا بناجز."
(أخرجه البخاري في صحيحه، كتاب البيوع، باب بيع الذهب بالذهب، رقم الحديث: 2217، ج:1، ص:404، ط: جمعية المكنز الإسلامي)
ترجمہ :
’’ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سونا سونے کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو، دونوں طرف سے کمی یا زیادتی کو روانہ رکھو اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابربرابر نہ ہو،دونوں طرف سے کمی یا زیادتی کو روانہ رکھو اور نہ ادھار کو نقد کے بدلے میں بیچو۔‘‘
(ترجمہ از تفہیم البخاری ، مؤلف: مولانا ظہور الباری ، ج: ۱ ، ص:۹۳۴،ط :دار الاشاعت)
سير أعلام النبلاء للذھبی میں ہے:
"أبو رافع الصائغالمدني ثم البصري نفيع (ع) من أئمة التابعين، وهو مولى آل عمر.اسمه: نفيع، ذلك في حياة النبي - صلى الله عليه وسلم...إلخ "[وقال بعدسطور:]"و قال ثابت البناني: لما أعتق أبو رافع، بكى، وقال: كان لي أجران، فذهب أحدهما.قلت: كان من أئمة التابعين الأولين، ومن نظراء أبي العالية وبابته. توفي: سنة نيف وتسعين."
(ج: 7، ص: 468، ط: مؤسسة الر سالة)
الاصابۃ فی تمییز الصحابہ لابن حجر العسقلانی میں ہے:
"أبو رافع الصائغ اسمه نفيع وهو مدني نزل البصرة وهو مولى بنت النجار وقيل بنت عمه ذكره بن سعد في الطبقة الأولي من أهل البصرة وقال خرج قديما من المدينة وهو ثقة وأخرج الحاكم أبو أحمد في الكنى...إلخ "[إلى أن قال:]"وقال أبو عمر مشهور من علماء التابعين أدرك الجاهليةوأخرج إبراهيم الحربي في غريب الحديث بسند جيد عن أبي رافع قال كان عمر يمازحني يقولأكذب الناس الصائغ يقول اليوم غدا ."
(ج:7، ص:148، ط:دار الجيل بيروت)
الحرف و الصناعات فی الحجاز فی عصر رسول اللہ ﷺ للدکتور عبد العزیز العمری میں ہے :
"ويبدو أن أهل الحجاز لديهم معرفة بالصياغة وطرقها ووجد لديهم صواغ قبيل ظهور الإسلام وبعد ذلك، حيث أن أهالي الحجاز في العصر الجاهلي عرفوا الحلي...إلخ " [ إلى أن قال:]"وقد كان يتعاطى هذه الصنعة أرذل الناس عند العرب، كاليهود والموالي أما الأشراف فإنهم يربأون بأنفسهم عن ذلك .وفي المدينة المنورة اشتهر اليهود بإجادتهم للصياغة حيث أن هناك عدداً كثيراً من الصواغ من بني قينقاع وغيرهم من يهود حيث نرى أن المؤرخين يذكرون في سبب غزو الرسول لبني قينقاع أن امرأة من المسلمين جلست إلى صائغ من بني قينقاع فجعلوا يريدونها على كشف وجهها فأبت فعمد الصائغ إلى ربط ثوبها إلى ظهرها ، فلما قامت انكشفت عورتها ، القصة، وحينما أجلى الرسول يهود قينقاع من المدينة وجد الرسول في منازلهم كثيراً من السلاح وآلات الصياغة "وهذه الآلات تدل على احترافهم للصياغة، يقول ابن الأثير : ( وغنم رسول الله ﷺ والمسلمون ما كان لهم من مال ولم يكن لهم أرضون وإنما كانوا صاغة)... إلخ"
(ص:292 -293، ط: دار اشبيليا)
وفيه أيضا:
"ووجدت الحلي عند الكثير من النساء في المدينة وفيها حلي من ذهب وفضة ، وقد وردت أخبار ذلك في كتب الحديث وأكثرها فيما يتعلق بزكاة الحلي، فذكر عن زينب بنت معاوية الثقفية زوجة عبد الله بن مسعود رضي الله عنه أن عندها حلياً من ذهب وفضة ، وكان منها طوق من ذهب فيه عشرون مثقالاً ...إلخ "
(ص:294، ط: دار اشبيليا)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية وفي فوائد القدوري المراد بالقبض ههنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد كذا في فتح القدير وتفسير الافتراق هو أن يفترق العاقدان بأبدانهما عن مجلسهما بأن يأخذ هذا في جهة وهذا في جهة أو يذهب أحدهما ويبقى الآخر حتى لو كانا في مجلسهما لم يبرحا عنه لم يكونا متفرقين، وإن طال مجلسهما ...إلخ"
(كتاب الصرف، الباب الأول في تعريف الصرف وركنه ...إلخ، ج:3، ص:217، ط: دار الفكر )
فتاوی شامی میں ہے :
" باب الصرف عنونه بالباب لا بالكتاب؛ لأنه من أنواع البيع (هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس... إلخ " [ و في ردالمختار :] " (قوله: لا بالتخلية) أشار إلى أن التقييد بالبراجم للاحتراز عن التخلية، واشتراط القبض بالفعل لا خصوص البراجم، حتى لو وضعه له في كفه أو في جيبه صار قابضا.(قوله: قبل الافتراق) أي افتراق المتعاقدين بأبدانهما، والتقييد بالعاقدين يعم المالكين والنائبين، وتقييد الفرقة بالأبدان يفيد عموم اعتبار المجلس، ومن ثم قالوا إنه لا يبطل بما يدل على الإعراض، ولو سارا فرسخا ولم يتفرقا...إلخ "
(رد المحتار على الدر المختار ، كتاب البيوع ، باب الصرف ، ج : 5 ، ص: 257 إلى 259، الناشر : سعيد)
فقط و اللہ أعلم
فتوی نمبر : 144511100517
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن