ایک مکان ہم نے کرایہ پر لیا ہے اور تین لاکھ روپے ڈیپازٹ دیا ہے ۔ اور مسئلہ یہ کہ جب ہم مکان خالی کر یں گے تو جو رقم ہم نے بطور ڈیپارزٹ دی ہے ، مکان مالک وہ رقم پوری کی پوری واپس دے دے گا ۔کیا اس طرح سے کرایہ پر مکان لینا ، اور اس مکان سے نفع حاصل کرنا جائز ہے ؟ اگر جائز نہیں ہے تو جائز کی شکل و صورت بتائیں؟
” زر ضمانت “ جوکہ عمومًا اس غرض سے وصول کیا جاتا ہے کہ کرایہ دار اگر املاک کو نقصان پہنچائے تو اس نقصان کا ازالہ ” زر ِضمانت “ سے ہوسکے، اس کی ابتدائی حیثیت” امانت“ کی ہے، البتہ اس کی عرفی حیثیت انتہاءً ”قرض“ کی ہے، اگر چہ اس کو ڈپازٹ کہا جاتا ہے؛ کیوں کہ لینے والا ( مالک مکان ) بہر صورت اس کے استعمال کو جائز سمجھتا ہے، اور کرایہ داری کی مدت ختم ہونے پر واپس کرنا لازم سمجھا جاتا ہے، ” زر ضمانت“ جمع کراکر کرایہ داری کا معاہدہ کرنا شرعًا جائز ہے۔
اس تمام معاملہ میں سود نہیں؛ کیوں کہ سود اس اضافہ کو کہا جاتا ہے جو عوض سے خالی ہے، کرایہ داری کے معاملہ میں کرایہ دار گھر استعمال کرنے کے عوض کرایہ ادا کرتا ہے، جب کہ زر ضمانت کے عوض کچھ وصول نہیں کرتا، لہذا زرِ ضمانت جمع کراکر کرایہ داری کا معاہدہ کرنا شرعًا جائز ہوگا، البتہ اگر کوئی شخص زیادہ زر ضمانت جمع کرانے کے عوض مروجہ کرایہ سے کم پر کرایہ داری کا معاہدہ کرتا ہے، تو ایسا معاملہ سودی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"[مَطْلَبٌ كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ]
(قَوْلُهُ" كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ) أَيْ إذَا كَانَ مَشْرُوطًا كَمَا عُلِمَ مِمَّا نَقَلَهُ عَنْ الْبَحْرِ، وَعَنْ الْخُلَاصَةِ وَفِي الذَّخِيرَةِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ النَّفْعُ مَشْرُوطًا فِي الْقَرْضِ، فَعَلَى قَوْلِ الْكَرْخِيِّ لَا بَأْسَ بِهِ وَيَأْتِي تَمَامُهُ."
(كتاب البيوع، باب المرابحة و التولية، فصل في القرض، ٥ / ١٦٦، ط: دار الفكر)
وفيه أيضا:
"مَطْلَبٌ أَسْكَنَ الْمُقْرِضَ فِي دَارِهِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ.
وَفِي الْخَانِيَّةِ: رَجُلٌ اسْتَقْرَضَ دَرَاهِمَ وَأَسْكَنَ الْمُقْرِضَ فِي دَارِهِ، قَالُوا: يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ عَلَى الْمُقْرِضِ؛ لِأَنَّ الْمُسْتَقْرِضَ إنَّمَا أَسْكَنَهُ فِي دَارِهِ عِوَضًا عَنْ مَنْفَعَةِ الْقَرْضِ لَا مَجَّانًا وَكَذَا لَوْ أَخَذَ الْمُقْرِضُ مِنْ الْمُسْتَقْرِضِ حِمَارًا لِيَسْتَعْمِلَهُ إلَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِ الدَّرَاهِمَ اهـ وَهَذِهِ كَثِيرَةُ الْوُقُوعِ، وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ."
(كتاب الاجارة، باب الإجارة الفاسدة، ٦ / ٦٣، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201926
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن