بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوٰۃاور صدقات واجبہ کو مدرسے کی تعمیرمیں لگانا


سوال

ہمارے مدرسے میں چھوٹے بڑے رہائشی طلباءزیرتعلیم ہیں ،اور ہمارے مدرسے کی ضروریات کےلیے صدقات نافلہ ناکافی ہیں ،تو کیا صدقات واجبہ کی مد سے مدرسے کی مندرجہ ذیل ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں ؟تعمیر ،اساتذہ کی تنخواہیں ، رہائشی سامان یعنی رہائش کابندوبست ،وغیرہ 

اس کا آسان اور شبہات سے پاک طریقہ کار کیاہوگا؟نیز ان صدقات واجبہ کو ہم کن کن ضروریات میں صرف کر سکتے ہیں؟

جواب

  زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ؛ اس لیے رفاہی کاموں،شفاخانوں اور مدارس ومساجد کی تعمیر  وغیرہ پر زکاۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔ باقی نفلی صدقات وعطیات تعمیراتی کاموں میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جگہوں میں براہِ راست زکوة ،صدقہ فطر ودیگر صدقاتِ واجبہ کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں ؛اس لیےکہ ان جگہوں پر خرچ کرنے میں تملیک(مالک بنائے جانے )کا تحقق نہیں ہوتا ، اس کی  آسان اور شبہات سے پاک صورت یہ ہے کہ طلبہ کے لیے  زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کی رقم سے  ماہانہ وظیفہ مقرر کیاجائے ،اور یہ وظیفہ طلبہ کو دینے کے بعد  ان سے کھانے کی رقم اور فیس(جو کہ پہلے سے مقررکی گئی ہو)  اسی وظیفے سے وصول کی  جائے ،پھر اس رقم کو مذکورہ مصارف میں خرچ کرنا جائز ہوگا ،اس طرح کرنے سے زکوٰۃ بھی ادا ہوجائےگی اور مذکورہ ضروریات بھی پوری ہوجائیں گی ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."

(1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ)

الدرالمختار مع الردالمحتار میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ولو أذن فمات فإطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز وهو الوجه نهر (و) لا إلى (ثمن ما) أي قن (يعتق) لعدم التمليك وهو الركن.

وقدمنا أن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم."

(کتاب الزکوٰۃ،باب مصرف الزکوٰۃوالعشر،ج:2،ص:345،ط:سعید)

کفایت المفتی میں  اسی قسم کے سوال کے متعلق ہے:

زکوٰۃکا پیسہ غیریب   و مسکین طالب علموں کے کھانے یا کپڑے یاسامان تعلیم پر بطور تملیک طلبہ کو دینے کےلیے خرچ کیا جاسکتاہے،مدرسین و ملازمین کی تنخواہو ں یا تعمیرات میں خرچ نہیں ہوسکتا ،اگر اور کوئی آمدنی نہ ہو اور مدرسہ بند ہوجانے کاخطرہ ہوتوایسے وقت زکوٰۃکا روپیہ حیلہ شرعیہ کے ساتھ خرچ کیا جاسکتا ہے ،یعنی کسی مستحق کو تملیک کردی جائےاور وہ اپنی طرف سے مدرسے کو دیدےتوجائز ہوگا۔   

ـ(کتاب الزکوٰۃو صدقات ،ج:4،ص:304،ط:دارالاشاعت)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں