بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زوجین کے مابین نباہ نہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کا طریقہ


سوال

میری شادی کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرا ہے تاہم شادی چل نہیں پا رہی کئی مرتبہ بحث اور مباحثہ ہوا ہے اور بیوی اپنی والدہ کے گھر چلی جاتی ہے یا بھائی بھیج دیتا ہے ایسا کئی مرتبہ کوشش کرنے کے بعد میں طلاق دینے کا ارادہ کر چکا ہوں؛ کیوں کہ بیوی کے گھر والے میرے بھائی کو مستقل طلاق دینے پر زور دے رہے ہیں۔ ازراہ کرم شریعت کے کی روشنی میں بتائیں کہ طلاق کس طرح دوں؟  اس کے لیے موزوں وقت اور طریقہ نیز طلاق دینے کے بعد کی ترتیب کے متعلق تفصیل سے آگاہ فرمائیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں شادی جیسے مقدس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے سائل کو چاہیے کہ اپنے علاقے یا برادری کے معززین کے سامنے اپنے مسئلے کو رکھے تاکہ نباہ کی کوئی صورت ممکن بنایا جا سکے،  تاہم اگر سارے اسباب اختیار کرنے کے باوجود نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو پھر  طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہےکہ سائل اپنی بیوی کو اس کی پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق دے دے، مزید کوئی طلاق نہ دے اور رجوع بھی نہ کرے، اس کے بعد مطلقہ (سائل کی زوجہ) کی عدت یعنی پوری تین ماہواری کے گزرنے کے بعد نکاح ختم ہو جائے گا اور مطلقہ دوسری جگہ نکاح کرنے کے لیے آزاد ہوگی، تاہم اگر زوجین کے مابین ایک طلاق کے بعد دوبارہ ساتھ رہنے کی کوئی ترتیب ہوجائے تو تین ماہواری کے گزرنے سے پہلے سائل قولاً یا عملاً رجوع کر لے تو نکاح برقرار رہے گا لیکن اگر مطلقہ کی تین ماہواری گزر چکی ہوں اور پھر ساتھ رہنے کی کوئی ترتیب بن جائے تو اس صورت میں دو گواہوں کی موجودگی میں نئی مہر کے ساتھ تجدید نکاح کرے، نکاح منعقد ہوجائے گا البتہ دونوں صورتوں میں آئندہ کے لئے سائل کو دو طلاق کا حق ہوگا، نیز طلاق دینے کی صورت میں اگر سائل کی زوجہ ازخود اپنے گھر گئی ہے تو اس صورت میں وہ عدت کے دوران کے نفقہ کی حق دار نہیں ہوگی اور اگر سائل کے بھائی نے بھیجا ہے تو وہ عدت کے دوران کے نفقہ کی حق دار ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(أما) الطلاق السني في العدد والوقت فنوعان حسن وأحسن فالأحسن أن يطلق امرأته واحدة رجعية في طهر ‌لم ‌يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها."

(كتاب الطلاق، الباب الأول في تفسير الطلاق وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه، الطلاق السني: 1/ 348، ط: سعید)

فتح القدير للكمال ابن الهمام ہے:

"قال (الطلاق على ثلاثة أوجه: حسن، وأحسن، وبدعي. ‌فالأحسن ‌أن ‌يطلق الرجل امرأته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقضي عدتها)؛ لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم كانوا يستحبون أن لا يزيدوا في الطلاق على واحدة حتى تنقضي العدة فإن هذا أفضل عندهم من أن يطلقها الرجل ثلاثا عند كل طهر واحدة؛ ولأنه أبعد من الندامة وأقل ضررا بالمرأة ولا خلاف لأحد في الكراهة."

(‌‌كتاب الطلاق: 3/ 466، ط: دار الفكر، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100365

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں