بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زانیہ کا کسی پاکدامن مرد سے نکاح کا حکم؟


سوال

میں غلط ماحول کی وجہ سے زنا کی مرتکب ہوئی، اور دوستوں سے اپنے گناہ کا تذکرہ بھی کیا، لیکن اب سچے دِل سے توبہ تائب ہو چُکی ہُوں۔مُجھے پوچھنا یہ ہے کی وہ زانی بھی مُجھ سے نکاح کرنے کو تیار ہے۔ مگر میرے گھر والوں نے ایک دوسرا لڑکا دیکھا ہے میرے نکاح کے لیے، جو کہ نیک ہے ۔ کیا میں اُس لڑکے سے نکاح کر سکتی ہوں، میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟ اِس نکاح میں کوئی حرج تو نہیں ؟ کیا اس لڑکے کو اپنا گناہ بتانا ضروری ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کے لئے  گھر والوں نے جس نیک آدمی کا رشتہ  دیکھا ہے،  اس سے  سائلہ کا نکاح کرنا جائز ہے، اور اس کو بلکہ کسی کو بھی اپنی گناہ سے متعلق نہ بتائے؛ کیوں کہ لوگوں کے سامنے اپنے گناہ کا تذکرہ کرنا بھی گناہ ہے، صرف اللہ تعالی سے توبہ واستغفار کرے اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ کرے، اور جلد از جلد شادی کرنے کی کوشش کرے؛ تاکہ گناہوں سے بچنا آسان ہوجائے۔

بذل المجہول فی حل سنن ابی داود میں ہے:

"قال في "نهاية المقتصد": اختلفوا في زواج الزانية، فأجازها الجمهور، ومنعها قوم، وسبب اختلافهم: اختلافهم في مفهوم قوله تعالى: {وحرم ذلك على المؤمنين}، هل خرج مخرج الذم أو مخرج التحريم؟ وهل الإشارة في قوله تعالى: {وحرم ذلك على المؤمنين} إلى الزنا أو إلى النكاح؟وإنما صار الجمهور لحمل الآية على الذم لا على التحريم؛ لما جاء في الحديث، لحديث ابن عباس - رضي الله عنه -: أن رجلا قال للنبي - صلى الله عليه وسلم - في زوجته: إنها لا ترد يد لامس.... الحديث".

(بذل المجهود في حل سنن أبي داود: باب: في قوله تعالى: الزانى لا ينكح إلا زانية (7/ 590، 591)، ط. مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعة  الأولى:1427 هـ = 2006 م)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وأما مانع الزنا أي: زواج الزانية: فأجازه الجمهور، ومنعه قوم، ومنشأ اختلافهم: اختلافهم في مفهوم قوله تعالى: {والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك، وحرم ذلك على المؤمنين} [النور:3/24] هل خرج مخرج الذم أو مخرج التحريم؟".

(الفقه الإسلامي وأدلته: البَاب الأوَّل: الزّواج وآثاره، الفَصْلُ الثَّالث، النوع الثاني ـ المحرمات المؤقتة ، وأما مانع الزنا  (9/ 167)، ط. دار الفكر - سوريَّة ،  دمشق، الطبعة : الطَّبعة الرَّابعة)

بخاری شریف میں ہے:

" عن سالم بن عبد الله قال سمعت أبا هريرة يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: كل أمتي معافى إلا المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه".

أخرجه البخاري في باب ستر المؤمن على نفسه  (5/ 2254) برقم (5721)، ط. دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت، الطبعة الثالثة : 1407هـ =1987م)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں