بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کو مسجد بنانے کے لیے وقف کرنے کی صورت میں وہ زمین کسی اور کام میں صرف کرنا جائز نہیں


سوال

میرےوالد صاحب نے اپنی ملکیت کی  ایک زمین مسجد کے لیے مختص کررکھی تھی اور اس پر انہوں نے مسجد بنانے کا پختہ ارادہ بھی کیا، پھر جب اس زمین پر مسجد بنانے کی بات ہوئی تو وہاں کے بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے حضرات نے مسجد بنانے سے منع کردیااور یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ نے یہاں مسجد بنائی یا اس پر مسجد بنانے کے لیے کوئی کام بھی کیا تو ہم اسے رکوادیں گے، بہرحال ہم مسجد اس لیے بنارہے ہیں کہ ہمارے علاقے میں دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے حضرات کی کوئی بھی مسجد نہیں ہے، تمام مساجد بریلویوں کی ہیں، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ا س زمین پر مسجد بنانا ضروری ہے؟ اور کیا اسے فروخت کیا جاسکتاہے؟کیوں کہ جب بھی اس زمین کو فروخت کرنے سے متعلق کوئی بات آتی ہے، تو والد صاحب منع فرمادیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جگہ مسجد کے لیے مختص ہے، کیا ہم اسے دوسرے مصارف میں استعمال کرسکتے ہیں؟

جواب

 ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی تمام مملوکہ جائیداد کا خود مالک ومختار ہوتاہے،اسے اختیار ہے کہ  جس طرح چاہے اپنی مملوکہ چیز میں جائز تصرف کرے،  لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے جب اپنی مملوکہ زمین مسجد بنانے کے لیے وقف کردی تو یہ زمین  سائل کی طرف سے وقف ہوگئی اور  وقف کرنے سے وہ  سائل کی ملکیت سے نکل گئی اور اللہ  کی ملکیت میں داخل ہوگئی، چناں چہ اس کے بعد زمین کو نہ  فروخت کرنا جائز ہے اور نہ ہی  وقف سے رجوع کرنا جائزہے،بلکہ واقف نے جس چیز کے لیے زمین کووقف کیا ہے اسے اسی میں استعمال کرنا ضروری ہے، باقی جو لوگ مسجد بنانے میں روکاوٹ ڈالتے ہیں ان کا منع کرنا جائز نہیں،   جھگڑے سے بچنے کے لیے حکومتی تعاون لے لیا جائے، یاپھرکسی ایسے بااعتماد ادارہ یا شخصیت کی تولیت میں دے دیں جو بےجامداخلت کرنے والوں کی مداخلت کا سدِّ باب کرکے مسجد کی تعمیر کر سکے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما".

(كتاب الوقف ، الفصل الأول في تعريف الوقف ،ج: 2،ص: 350، ط: دار الفكر)

وفيه أيضا:

"فأما ركنه فالألفاظ الخاصة الدالة عليه كذا في البحر الرائق."

(کتاب الوقف، الباب الاول، ج: 2، ص: 352، ط: دار الفکربیروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌الرجوع ‌عن ‌الوقف."

(كتاب الوقف، مطلب في إقالة المتولي عقد الإجارة، ج: 4، ص: 456، ط: سعيد)

وفيه أيضًا:

"(وركنه ‌الألفاظ ‌الخاصة ك) أرضي هذه (صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه) من الألفاظ كموقوفة لله تعالى أو على وجه الخير أو البر واكتفى أبو يوسف بلفظ موقوفة فقط قال الشهيد ونحن نفتي به للعرف."

(كتاب الوقف، ج: 4، ص: 40 3، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فأما ركنه فالألفاظ الخاصة الدالة عليه كذا في البحر الرائق."

(کتاب الوقف، الباب الاول، ج: 2، ص: 352، ط: دار الفکربیروت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

 جس کام کیلئے واقف نے وہ قطعہ زمین وقف کیا ہے اس کے خلاف میں استعمال کرنا جائز نہیں اور اس کو اور دیگر نمازیان وغیرہ کسی کو بھی شرعاً یہ حق حاصل نہیں کہ واقف کی غرض کے خلاف کسی دوسرے کام میں اس وقف کو صرف کریں یا منتقل کریں: "نص الواقف كنص الشارع"۔۔۔جب واقف نے جائیداد مطلق دینی مصرف میں خرچ کرنے کے لئے وقف کر دی اگر چہ زبانی کیا تو یہ وقف صحیح ہو گیا ، اس کے بعد کسی کو کسی ایک مصرف کے لئے تخصیص و تعیین کرنے کا حق نہیں ہے، بلکہ اس موقوفہ جائیداد کو مسجد و دینی مدارس اور دیگر دینی مصرف میں خرچ کرنا درست ہے۔

(کتاب الوقف، باب مایتعلق بنفس الوقف، ج:14، ص:280، ط: فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512101694

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں