ایک شخص نے دوسال پہلے ایک ٹوٹہ زمین خریدی ہے بیس لاکھ روپے میں، اب وہ زمین پچاس لاکھ روپے میں فروخت ہوتی ہے ، تو اب زکاۃ بیس لاکھ کے حساب سے دینا ہوگا، یا پچاس لاکھ کے اعتبار سے، یعنی مطلب زکاۃ خریدنے کے اعتبار سے ہے یا موجودہ قیمت کے حساب سے؟
بصورتِ مسئولہ جب مذکورہ پلاٹ تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہے تو زکوۃ اس کی قیمتِ فروخت پر فرض ہوگی، یعنی جب زکات کا سال پورا ہو، تو سائل اگر پہلے سے صاحب نصاب ہے تو دیگر اموالِ زکات کی زکات ادا کرتے وقت ، اور اگر پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں ہے تو سال پورا ہونے پر مذکورہ پلاٹ کی قیمتِ فروخت میں سے ڈھائی فیصد بطورِ زکات ادا کرے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه فتح."
(كتاب الزكوة، باب زكوة الغنم، ج:2، ص:285، ط:ايج ايم سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144212202033
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن