بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کے مالک کے لیے زکاۃ لینے حکم


سوال

 ایک آدمی کے پاس باغ اور زمین ہیں جن میں  کبھی کاشت کرتے ہیں کبھی نہیں ، باقی اس کے پاس کچھ نہیں ہے، کیا وہ صدقات واجبہ اور زکات وصول کرسکتا ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے پاس جو باغ اور زمین موجود ہے،  اگر وہ باغ اور زمین کاشت کاری ہی کے لیے ہوکہ جس میں کاشت کر کے اناج حاصل کرتا ہو اور یہی اس کے ضروریات میں خرچ ہوتا ہو ،اور سال کے آخر میں اس میں سے بقدرِ نصاب کچھ باقی نہیں رہتاہو  تو ایسی صورت میں یہ  آدمی زکوۃ  اور صدقاتِ واجبہ  وصول کر سکتا ہے،اور  اگر وہ باغ اور زمین اس کی ضرورت سے زائد   ہو یعنی  کاشت کاری کے علاوہ ہو   ،اور ان کا غلہ یا ان کا کرایہ گھر کی ضروریات میں صرف نہ ہوتا ہو، تو وہ ضرورتِ اصلیہ میں داخل نہیں ہوں گی،  ان کی قیمت اگر نصاب کے بقدر ہو تو ایسا شخص زکاۃ کا مستحق نہیں ہوگا۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وكذا لو كان ‌له ‌حوانيت أو دار غلة تساوي ثلاثة آلاف درهم وغلتها لا تكفي لقوته وقوت عياله يجوز صرف الزكاة إليه في قول محمد - رحمه الله تعالى -، ولو كان ‌له ضيعة تساوي ثلاثة آلاف، ولا تخرج ما يكفي ‌له ولعياله اختلفوا فيه قال محمد بن مقاتل يجوز ‌له أخذ الزكاة."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:187، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)......(قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه."

( ‌‌كتاب الأضحية، ج:6، ص:312، ط: سعيد)

وفيه ايضاً:

"وذكر في الفتاوى فيمن ‌له ‌حوانيت ‌ودور ‌للغلة لكن غلتها لا تكفيه وعياله أنه فقير ويحل ‌له أخذ الصدقة عند محمد، وعند أبي يوسف لا يحل وكذا لو ‌له كرم لا تكفيه غلته؛ ولو عنده طعام للقوت يساوي مائتي درهم، فإن كان كفاية شهر يحل أو كفاية سنة، قيل لا تحل، وقيل يحل؛ لأنه يستحق الصرف إلى الكفاية فيلحق بالعدم، وقد ادخر - عليه الصلاة والسلام - لنسائه قوت سنة، ولو ‌له كسوة الشتاء وهو لا يحتاج إليها في الصيف يحل ذكر هذه الجملة في الفتاوى. اهـ.

وفي التتارخانية عن التهذيب أنه الصحيح وفيها عن الصغرى ‌له دار يسكنها لكن تزيد على حاجته بأن لا يسكن الكل يحل ‌له أخذ الصدقة في الصحيح وفيها سئل محمد عمن ‌له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل ‌له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى."

(‌‌كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:348، ط:سعيد)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"والحاصل أن مايكون مشغولاً بحاجته الحالية نحو الخادم والمسكن، وثيابه التي يلبسها في الحال، لايعتبر في تحريم الصدقة بالإجماع، ومايكون فاضلاً عن حاجته الحالية يعتبر في تحريم الصدقة."

(كتاب لزكاة، الفصل الثامن من توضع فيه الزكاة، ج:3، ص:217، ط:رشيدية)

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال: وجوب فطر و اضحیہ وحرمتِ اخذ زکاۃ وغیرہ وصد قات کے لیے عقار کی غناء کس طرح پر ہے؟

الجواب: روایات مذکورہ تو زیادہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن استاذی علیہ الرحمۃ امام محمد ؒ کے قول پر فتوی دیتے ہوئے دیکھا، اور خود احقر کا عمل بھی اسی پر ہے، مگر اس میں قدرے تفصیل ہے: وہ یہ کہ اگر اس عقار سے یہ شخص استغلال نہیں کرتا تب تو خود اس کی قیمت کا اعتبار ہے، پس اگر وہ فاضل ازحاجتِ اصلیہ قیمت بقدرِ نصاب ہے تو مانع اخذ زکاۃ وموجب فطر واضحیہ ہے،اور اگر اس سے استغلال کرتا ہے تو اس کے غلہ کا اعتبار ہے اگر اس کا غلہ سال بھر کے خرچ سے بمقدارنصاب نہیں بچتا تو مانع اخذ زکاۃ وموجب فطرواضحیہ نہیں ...."

(کتاب الزکاۃ والصدقات، باب زکاۃ المال، جائیدادِ غیرِ منقولہ میں مقدارِ غناء کی تحقیق، 576، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144409101493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں