بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کا زمین کے بدلے کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنے اور تجارتی پلاٹوں میں زکات کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں:

1۔ ایک شخص کی زمین سڑک کے قریب ہے اور اس کی قیمت سڑک کے قریب ہونے کی وجہ سے زیادہ ہے ، دوسرے شخص کی زمین سڑک سے دور ہونے کی وجہ سے اس  کی قیمت  بہت کم ہے ، آیا سڑک والی زمین کو دے  کر اس کے بدلے میں دوسری جگہ سے تین چار پلاٹ لینا اس ایک پلاٹ کے بدلے میں ، جس کی قیمت زیادہ ہے تو آیا   یہ جائز ہے یا نہیں؟

2۔  دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص کے بہت سارے پلاٹ  ہیں جو اس نے تجارت کے لیے خریدے ہیں، خریدتے    وقت   ان کی قیمت بہت کم تھی یعنی   ہزاروں کے حساب میں  تھے،   اب لاکھوں میں ہیں  تو ان پلاٹوں پر زکوۃ ہے یا نہیں ؟

3۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص کی بہت ساری زمینیں ہیں جو اس کی ملکیت میں آباء و اجداد کی طرف سے چلی آرہی ہیں  لیکن ان پر کیس چل رہا ہے تو ان پر بھی زکوۃ ہے  یا نہیں ؟

جواب

1)واضح رہے کہ جو   اشیاء  مذروعی ہیں جیسے زمین وغیرہ  تو ان میں  آپس میں تبادلہ کی صورت میں کمی بیشی جائز ہے، لیکن ادھار جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے لیے سڑک کے کنارے  والی اپنی  زمین کے بدلے  تین چار پلاٹ لینا جائز ہے، بشرط یہ کہ نقد یعنی ہاتھ در ہاتھ ہو، ادھار جائز نہیں ہے۔

3، 2)جو  پلاٹ  تجارت کی نیت سے خریدا جائے کہ اس کو فروخت کرکے نفع کمایاجائے گا اور ا س کی مالیت نصاب تک پہنچتی ہو تو سال گزرنے کے بعد اس  پلاٹ کی موجودہ قیمت پر زکوۃ واجب ہوگی  اور جو زمینیں آباء و اجداد کی طرف سے چلی آرہی ہیں ، ان میں زکات واجب نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

‌‌باب الربا هو لغة: مطلق الزيادة وشرعا (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة  والبيوع الفاسدة فكلها من الربا فيجب رد عين الربا لو قائما لا رد ضمانه لأنه يملك بالقبض قنية وبحر (خال عن عوض) .خرج مسألة صرف الجنس بخلاف جنسه (بمعيار شرعي) وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربا مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر فلو شرط لغيرهما فليس بربا بل بيعا فاسدا (في المعاوضة) فليس الفضل في الهبة بربا...(قوله فليس الذرع والعد بربا) أي بذي ربا أو بمعيار ربا فهو على حذف مضاف أو الذرع والعد بمعنى المذروع والمعدود: أي لا يتحقق فيهما ربا والمراد ربا الفضل لتحقق ربا النسيئة، فلو باع خمسة أذرع من الهروي بستة أذرع منه أو بيضة ببيضتين جاز لو يدا بيد لا لو نسيئة لأن وجود الجنس فقط يحرم النساء لا الفضل كوجود القدر فقط كما يأتي."

(كتاب البيوع، باب الربا ، ج:5، ص: 168 تا 170،  ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر)  المعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء (وإن عدما) بكسر الدال من باب علم ابن مالك (حلا) كهروي بمرويين لعدم العلة فبقي على أصل الإباحة (وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل وحرم النساء) ولو مع التساوي."

(كتاب البيوع، باب الربا ، ج:5، ص: 171،  ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال وهو ‌محرم ‌في ‌كل ‌مكيل وموزون بيع مع جنسه وعلته القدر والجنس...وإن وجد القدر والجنس حرم الفضل والنساء وإن وجد أحدهما وعدم الآخر حل الفضل وحرم النساء وإن عدما حل الفضل والنساء."

 (كتاب البيوع، الباب التاسع فيما يجوز بيعه وما لا يجوز، الفصل السادس في تفسير الربا وأحكامه، ج:3، ص:117، ط:دار الفكر)

3، 2)فتاوی شامی میں ہے:

 والأصل: أن ما عدا الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة....(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج:2، ص:298، 300، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصاباً من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين۔ وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."

(کتاب الزکوۃ ، الفصل الثانی فی العروض ، ج:1،ص:179، ط:دار الفكر)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے  :

"ثم نیة التجارۃ مالم ینضم إلیه الفعل بالبیع أو الشراء، أو السوم فیما یسام، حتی أن من كان له عبد للخدمة، أو ثیاب البذلة نوى فیھا التجارۃ لم تکن للتجارۃ حتى یبیعھا فتکون في الثمن الزکاۃ مع ماله من المال، و هذا بخلاف ما لو کان عبد للتجارۃ ینوی أن یكون للخدمة بطل عنه الزکاة بمجرد النیة؛ لأنّ في الفصل الأول الحاجة إلی فعل التجارة، و هو لیس بفاعل فعل التجارۃ."

(كتاب الزكاة، باب زکاة عروض التجارۃ، ج:3، ص:166، ط: زکریا دیوبند)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں