بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین دار اورکسان دونوں پر عشر واجب ہے


سوال

1- عشر کسان اور زمین دار دونوں پر ہے ، یا پھر کسان کے حصے کا عشر بھی زمین دار پر ادا کرنا واجب ہے ؟

2-میرے پاس کسان غیر مسلم ہیں،  ہمارے یہاں زمین داری کا یہ رواج ہے کہ خرچے نکالنے کے بعد جو بچت ہوتی ہے اس میں سے آدھا حصہ زمین دار کا اور آدھا حصہ کسان کا ہوتا ہے، تو اب میں نے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کل پیداوار کا آدھا حصہ نکال کر باقی آدھے حصے کا عشر دینا ہوگا یا پھر کل پیداوار پر عشر ادا کرنا واجب ہوگا ؟

جواب

1- واضح رہے کہ جوزمین مالک نے کاشت کاری  کے لیے کسی مزارع کو کسی متعین حصے پر بطورِ مزارعت دی ہو، تو  زمین دار اورکسان دونوں پر اپنے اپنے حصے کا عشر واجب ہے، البتہ کسان غیر مسلم ہونے کی صورت میں اس کے آدھے حصے کاعشر اس پر لازم نہیں ہوگا، باقی سائل پر اپنے حصے کاعشر اداکرنا لازم ہے۔

2-       وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لےکر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں  یعنی وہ اخراجات جو زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں  مثلاً زمین کو ہموار کرنے، ٹریکٹر چلانے، مزدور کی اجرت وغیرہ  یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے  جائیں گے، بلکہ عشر  یا نصفِ عشر  اخراجات نکالنے سے پہلے  پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا۔

البتہ  پیداوار کی کٹائی  کے بعد وہ اخراجات جو زراعت (کھیتی باڑی) کے امور میں سے نہیں  ہوتے ، جیسے پیداوار کو منڈی تک پہنچانے  کا کرایہ، اسی طرح پیکنگ، لوڈنگ وغیرہ کے جو اخراجات  آئیں تو ایسے اخراجات  عشر ادا کرنے سے پہلے   منہا کیے  جاسکتے   ہیں ۔

لہذا اگر سائل  کو پیداوار کا آدھا حصہ ملتا ہے تو سائل کے ذمہ اس آدھے  حصے کا عشر ادا کرنا واجب ہے۔

الدرالمختار مع الردالمحتار میں ہے:

"والعشر على المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم: وفي الحاوي وبقولهما نأخذوفي المزارعة إن كان البذر من رب الأرض فعليه، ولو من العامل فعليهما بالحصة."

(كتاب الزكوة، باب العشر،ج:2،ص:334،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في المزارعة على قولهما العشر عليها بالحصة...ولا تحسب أجرة العمال ونفقة البقر، وكري الأنهار، وأجرة الحافظ وغير ذلك فيجب إخراج الواجب من جميع ما أخرجته الأرض عشرا أو نصفا كذا في البحر الرائق."

(کتاب الزکوۃ، الباب السادس فی زکوۃ الزرع و الثمار، ج: 1، ص: 187، ط: رشیدیہ)

درر الحکام میں ہے:

"إن نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموال حيث إن الغرم بالغنم."

(الکتاب العاشر: الشرکات، الباب الخامس فی بیان النفقات المشترکة، ج: 3، ص: 310، ط: دار الجیل)

تبیین الحقائق میں ہے:

"وخراج إن اشترى ذمي أرضا عشرية من مسلم) أي يجب الخراج إن اشترى ذمي غير تغلبي أرضا عشرية من مسلم...أن في العشر معنى العبادة والكفر ينافيها."

(كتاب الزكوة،باب العشر،ج:1،ص:295،ط:المطبة الكبرى الأميريه)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولأبي حنيفة أن ‌العشر فيه معنى العبادة والكافر ليس من أهل وجوب العبادة فلا يجب عليه ‌العشر كما لا تجب عليه الزكاة المعهودة."

(كتاب الزكوة،ج:2،ص:55،ط:دارالكتب العلميه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں