بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کی پیداوار میں عشر سے پہلے اخراجات نکالنا


سوال

کسی فصل کی پیسوں سے کس طرح زکات نکالنا چاہیے  سب پیسوں سے یا فصل کا  خرچ نکال کر باقی پیسوں سے؟ اور کم سے کم کتنی فصل ہو تو زکات دینی ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ زمین کی پیداوار میں عشر یا نصفِ عشر کا تعلق کل  پیداوار سے ہوتا ہے، پیداوار خواہ کم ہو یا زیادہ ہو۔

لہذا اگر عشری زمین کو  سال کے اکثر حصہ میں ایسے پانی سے سیراب کیا جائے  جس میں خرچہ  نہ آتا ہو  یعنی قدرتی آبی وسائل (بارش، ندی، چشمہ وغیرہ) سے سیراب کی جائے   تو اس میں عشر (یعنی کل پیداوارکا دسواں حصہ) واجب ہوگا، اور اگر وہ زمین مصنوعی آب رسانی کے آلات و وسائل (مثلاً: ٹیوب ویل یا خریدے ہوئے پانی (جس میں راج بہائے کا پانی بھی شامل ہے) سے سیراب کی جائے تو اس میں نصفِ عشر (یعنی کل پیداوار کا بیسواں حصہ بالفاظِ دیگر کل پیداوار کا پانچ فیصد) واجب ہوگا۔

اور  عشر یا نصف عشر  ادا کرنے سے پہلے تمام   وہ اخراجات جو زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لےکر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں، یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جائیں گے، بلکہ عشر  یا نصفِ عشر  اخراجات نکالنے سے پہلے  پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا۔

اور اگر پیداوار فروخت کرچکا ہے تو اس صورت میں  کل پیداوار کے دسویں حصے(عشر) یابیسویں حصے ( نصف عشر) کی قیمت ادا کرنا لازم ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 326):

’’(و) تجب في (مسقي سماء) أي مطر (وسيح)، كنهر (بلا شرط نصاب) راجع للكل (و) بلا شرط (بقاء) وحولان حول؛ لأن فيه معنى المؤنة، ولذا كان للإمام أخذه جبراً ويؤخذ من التركة ويجب مع الدين‘‘. 

وفیه أیضاً:

" (وجازدفع القیمة في زکاة وعشروخراج)… وتعتبرالقیمة یوم الوجوب، وقالا: یوم الأداء. وفي السوائم یوم الأداء إجماعًا، وهو الأصح. ویقوم في البلد الذي المال فیه، ولوفي مفازة ففي أقرب الأمصارإلیه". (2/258)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولاتحسب أجرة العمال ونفقة البقر، وكري الأنهار، وأجرة الحافظ وغير ذلك؛ فيجب إخراج الواجب من جميع ما أخرجته الأرض عشراً أو نصفاً، كذا في البحر الرائق". (1/ 187)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں