بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کے جھگڑے میں مسجد کی تولیت کو بدلِ صلح بنانا جائز نہیں


سوال

ایک عورت آمنہ نے ایک قطعۂ اراضی مسجد کے لیے وقف کیا، پھر ایک آدمی زید نے اس پر مسجد تعمیر کی اورمسجد کی تعمیر مکمل بھی ہوگئی، پھر اسی زید کا ایک دوسرے آدمی سلیم کے ساتھ کسی دوسری زمین پر جھگڑا ہوا اور یہ جھگڑا اس طرح ختم ہوا کہ سلیم کو تیار شدہ مسجد کا مہتمم و متولی بنا دیا گیا، جس کے نتیجے میں سلیم نے زید سے دوسری زمین کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ کیامسجد تعمیر کرنے والا اپنے ثواب کو زمین کے بدلے فروخت کر سکتا ہے؟ کیا اس طرح زمین پر صلح کرنے سے زمین والے کو بھی تعمیر کا ثواب ملے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید کا سلیم کو اس کے زمین پر دعوی کے بدلے بدلِ صلح میں اپنی تعمیر کردہ مسجد کی تولیت دینا اور دونوں کا اس طرح صلح کا معاملہ کرنا جائز نہیں تھا؛ کیوں کہ زید  نے صلح میں ایک حق کو عوض بنایا ہے، جو مسجد کی تولیت کا حق ہے اور یہ کوئی مال نہیں، جب کہ  بدلِ صلح میں مال کا ہونا لازمی شرط ہے۔

باقی زیرِ نظر مسئلہ میں جس عورت نے زمین مسجد کے  لیے وقف کی اور جس آدمی نے مسجد کی تعمیر کی ہے، ان دونوں کو زمین وقف کرنے اور  مسجد کی تعمیر کا پورا پورا ثواب ملے گا، مذکورہ معاملہ کی وجہ سے ان کے ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(منها) أن يكون مالا، فلا يصح الصلح على الخمر والميتة والدم وصيد الإحرام والحرم وكل ما ليس بمال؛ لأن في الصلح معنى المعاوضة، فما لا يصلح عوضا في البياعات لا يصلح بدل الصلح، وكذا إذا صالح على عبد فإذا هو حر لا يصح الصلح؛ لأنه تبين أن الصلح لم يصادف محله، وسواء كان المال عينا أو دينا أو منفعة ليست بعين ولا دين."

(ج:6، ص:42، کتاب الصلح، فصل في الشرائط التي ترجع إلى المصالح عليه، ط:سعيد)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عثمان رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من بنى لله مسجدا بنى الله له بيتا في الجنة»."

(ج:1، ص:220، كتاب الصلاة، باب المساجد ومواضع الصلاة، الفصل الأول، ط:المكتب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144307200072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں