بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کے تنازع میں قتل اور اس میں تعاون کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں اکثر دو قومیں زمین کے بارے میں جھگڑتی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بند ہوتی ہیں اور ایک دوسرے پر شدید فائرنگ کرتے ہیں ، اب پوچھنا یہ ہیں کہ اس جنگ میں مرنے والوں کا کیا حکم ہیں اور جنگ میں اپنی قوم کی مالی مدد کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں شدید ترین گناہ ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،کسی  مسلمان کو ناحق قتل کرنے میں جہاں اللہ  تعالیٰ کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے جو حقوق اللہ میں سے ہے، وہاں اس میں ایک مسلمان کو قتل کرنا، اس سے اس کو اور اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا یہ  بھی ناجائز ہے اور یہ ”حقوق العباد“ سے تعلق رکھتا ہے، شریعت نے اس پر سزائیں مقرر کی ہیں۔یہ حکم ہر اس شخص کے لیے جو ناحق کسی مسلمان کے قتل میں ملوث ہو۔حدیث شریف میں ہے :

" کسی مسلمان کا جو اللہ  کے ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو ، خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں،  ایک  یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرا شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرادین اسلام کو چھوڑ دینے والا ، جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔“

یہ بھی ملحوظ رہے کہ  جب ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام کسی سے واقع ہوجائے  تواس کی   سزا  کا نفاذ  حکومت کا کام ہے، عوام اس طرح کی سزا جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

صورت ِ مسئولہ میں زمین کے تنازع میں مرنے والوں کے بارے میں شرعی حکم میں  یہ تفصیل  ہے کہ اگر فریقین میں سے کو ئی ایک فریق حق پر ہے یعنی زمین اس کی ملکیت ہے تو اس صورت میں اس فریق میں سے کوئی قتل ہوجائے تو وہ شہید کے حکم میں ہوگااور ان کے ساتھ تعاون کرنا جائز ہوگا  اور دوسرا فریق چوں کہ حق پر نہیں ؛لہذا اس فریق میں سے اگر کوئی قتل ہوجائے تووہ شہید کے حکم میں نہیں ہوگااور ان کے ساتھ تعاون کرنا بھی جائز نہیں ہوگا  ۔

اور اگر دونوں فریق  میں سے کوئی بھی  فریق حق پر نہیں ہے یعنی زمین فریقین میں سے  کسی کی ملکیت نہیں بلکہ کسی تیسرے فریق کی ملکیت ہے  یا حکومت کی ہے تو اس صورت میں  چوں کہ دونوں فریق   ناحق ایک   دوسرے کو قتل کا ارادہ رکھتے ہیں  تو کوئی بھی شہید نہیں ہوگا بلکہ  حدیث مبارکہ  میں  دونوں فریق کے لیے  جہنم کی وعید سنائی گئی ہے ،اور کسی مسلمان کے قتل میں کسی بھی قسم کا تعاون کرنا بھی شرعا ً جائز نہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہوگا کہ:” یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔“

حدیث میں ہے :

"عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لايحل دم امرئ مسلم، يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، إلا بإحدى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والمارق من الدين التارك للجماعة."

(صحیح بخاری ،کتاب الدیات،ج:6،ص:2521،دارابن کثیر)

حدیث میں ہے :

"عن الأحنف بن قيس قال: ذهبت لأنصر هذا الرجل، فلقيني أبو بكرة فقال: أين تريد؟ قلت: أنصر هذا الرجل، قال: ارجع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:إذا ‌التقى ‌المسلمان بسيفهما فالقاتل والمقتول في النار. فقلت: يا رسول الله هذا القاتل، فما بال المقتول؟ قال: إنه كان حريصا على قتل صاحبه."

(صحیح البخاری ،کتاب الایمان،ج:1،ص:20،دارابن کثیر )

ترجمہ:احنف بن قیس سے مروی ہے فرماتے ہیں : میں اس صاحب (حضرت علی رضی اللہ عنہ)کی مدد کے لیے تیار تھا ،کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی- انہوں نے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ میں  اس صاحب  کی مدد کے لیے جانا  چاہتا ہوں- انہوں نے کہا لوٹ جاؤ- میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں کو لے کر آمنے سامنے مقابلہ پر آ جائیں تو دونوں دوزخی ہیں ،میں نے پوچھا یہ تو قاتل تھا مقتول نے کیا کیا (کہ وہ بھی ناری ہو گیا) فرمایا کہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر آمادہ تھا۔ 

عمدۃ القاری میں ہے :

"قوله: (فالقاتل والمقتول في النار) قال عياض وغيره: معناه إن جازاهما الله تعالى وعاقبهما كما هو مذهب أهل السنة، وهو أيضا محمول على غير المتأول، كمن قاتل لمعصية أو غيرها مما يشبهها، ويقال: معنى ‌القاتل ‌والمقتول في النار، أنهما يستحقانها، وأمرهما إلى الله عز وجل."

(کتاب الایمان،ج:1،ص:212،داراحیاء التراث العربی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(وعن أبي بكرة) بالتاء هو نفيع بن الحارث يقال: إنه تدلى يوم الطائف ببكرة وأسلم فكناه النبي صلى الله عليه وسلم بأبي بكرة وأعتقه، فهو من مواليه روى عنه خلق كثير (عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا التقى المسلمان حمل أحدهما) أي سل (على أخيه السلاح) الجملة بدل من الشرط، وقال الطيبي: حال وقد مقدرة، والمعنى إذا التقى المسلمان حاملا كل واحد منهما على الآخر السلاح، ولا بد من هذا التقرير ليطابق الشرط الجزاء وهو قوله (فهما في جرف جهنم) والجرف ما تجرفه السيول من الأودية اهـ وهو بضمتين وسكون الثاني جانبها وطرفها إشارة إلى قوله تعالى {وكنتم على شفا حفرة من النار فأنقذكم منها}  (فإذا قتل أحدهما صاحبه دخلاها) أي جهنم (جميعا) هذا الشرط مع جوابه عطف على الشرط الأول (وفي رواية عنه) أي عن أبي بكرة قال (إذا التقى المسلمان بسيفيهما) بالتثنية أي وأراد كل قتل الآخر بغير حق، وفي رواية بسيفهما فقتل  أحدهما صاحبه (فالقاتل والمقتول في النار قلت) وفي رواية قيل (هذا القاتل) أي حكمه ظاهر لأنه ظالم (فما بال المقتول) أي شأنه فإنه مظلوم (قال: إنه كان حريصا على قتل صاحبه) قال ابن الملك: فيه أن الحرص على الفعل المحرم مما يؤاخذ به، وإن قصد كل منهما كان قتل الآخر لا الدفع عن نفسه حتى لو كان قصد أحدهما الدفع ولم يجد منه بدا إلا بقتله فقتله لم يؤاخذ به لكونه مأذونا فيه شرعا".

(کتاب الدیات،باب  قتل اہل الردۃ والسعاۃ بالفساد،ج:6،ص:2313،دارالفکر)

حدیث میں ہے :

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: «جاء رجل فقال: يا رسول الله أرأيت إن جاء رجل يريد أخذ مالي؟ قال: (فلا تعطه مالك) قال: أرأيت إن قاتلني؟ قال: (قاتله) . قال: أرأيت إن قتلني؟ قال: (فأنت شهيد) . قال: أرأيت إن قتلته؟ قال: (هو في النار» ) رواه مسلم".

(مشکاۃ المصابیح،کتاب الدیات،باب مالایضمن من الجنایات،ج:2،ص:1043،المکتب الاسلامی)

قرآن مجید میں ہے :

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ  (سورة المائدة2)

حدیث میں ہے :

" عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أعان على قتل مؤمن و لو بشطر كلمة، لقي الله عز وجل مكتوب بين عينيه: آيس من رحمة الله."

(سنن ابن ماجہ ،باب التغلیظ فی قتل مسلم  ظلما،ج:2،ص:874،داراحیاء الکتب العربیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں