بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زمینی پیداوار پر عشر کی ادائیگی کا حکم


سوال

اگر کسی کے پاس 400 کنٹل غلہ ہے اور اس پر سال نہیں گزرا اس پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں ہے ؟اگر ہے کتنی دینی  پڑے گی؟

جواب

واضح رہے کہ زمین کی پیداوار میں   عشر ادا کرنا واجب ہے، زمینی پیداوار کی زکاۃ عشر ہی ہوتی ہے ، اور عشر میں سال کا گزرنا لازمی نہیں ،  بلکہ جب بھی فصل  تیار ہوگی تو  ہر فصل پر عشر ادا کرنا  لازمی ہوگا ، نیز  عشری زمین اگر بارانی  (بارش سے سیراب ہوئی)ہے تو  کل پیداوار میں سے  دسواں حصہ  نکالا جائے گا، لیکن اگر زمین بارانی نہیں بلکہ آب باشی کرنی پڑتی ہے تو ایسی صورت میں نصف ِ عشر  یعنی آدھا عشر  (پیداوار کا پانچ فیصد) واجب  ہوگا۔ 

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے پیداوار کا  عشر ادا نہیں کیا تو عشر  یعنی دسواں حصہ ادا کرنا لازمی ہے ، البتہ اگر یہ غلہ بیچنے کی نیت سے خریدا ہے  تو یہ مالِ تجارت ہے ، اس صورت میں اگر یہ شخص پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو اس غلہ پر الگ سے سال گزرنا ضروری نہیں ،بلکہ دوسرے نصابوں پر جب سال پورا ہوگا ، تو ان غلوں کی بھی زکوٰۃ نکالی جائے گی اور اگر یہ شخص پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں بلکہ ان غلوں کی وجہ سے نصاب کا مالک ہوا ہے تو سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ واجب ہوگی اور اگر غلہ کی قیمت ساڑھے باون  تولہ چاندی (612 گرام چاندی)  کی قیمت سے کم ہے یا اس کو بیچنے کی نیت سے نہیں خریدا ہے،  بلکہ گھر کے استعمال کے لیے خریدا ہے ، تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔

ارشادِ باری  تعالیٰ ہے:

{أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ} [البقرة: 267]

 {وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ} [الأنعام: 141]

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما ‌زكاة ‌الزروع ‌والثمار ‌وهو ‌العشر."

(كتاب الزكاة، فصل زكاة الزروع والثمار، ج:2، ص:53، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب ‌في (‌مسقي ‌سماء) أي مطر (وسيح) كنهر ..... قوله - صلى الله عليه وسلم -  ما سقت السماء ففيه العشر."

(‌‌‌‌كتاب الزكاة، باب العشر، ج:2، ص:325، ط:سعید)

الدّر  المختار  میں ہے :

"(و) ‌تجب ‌في (‌مسقي ‌سماء) أي مطر (وسيح) كنهر (بلا شرط نصاب) راجع للكل (و) بلا شرط (بقاء) وحولان حول."

(‌‌‌‌كتاب الزكاة، باب العشر، ج:2، ص:326، ط:سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وكذا ‌النصاب ‌ليس ‌بشرط لوجوب العشر فيجب العشر في كثير الخارج وقليله ولا يشترط فيه النصاب عند أبي حنيفة ....ولأبي حنيفة عموم قوله تعالى {أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ} وقوله عز وجل {وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ} وقول النبي - صلى الله عليه وسلم - ما سقته السماء ففيه العشر وما سقي بغرب، أو دالية ففيه نصف العشر من غير فصل بين القليل والكثير."

(كتاب الزكاة، فصل الشرائط المحلية، ج:2، ص:59، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: وحولان حول) حتى لو أخرجت الأرض مرارًا وجب في كل مرة؛ لإطلاق النصوص عن قيد الحول؛ ولأن العشر في الخارج حقيقةً فيتكرر بتكرره ..... ‌يجب العشر.(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة."

(‌‌‌‌كتاب الزكاة، باب العشر، ج:2، ص:326، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں