بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زمینیں کرایہ پر لے کر آگے کرایہ پر دینے کا حکم


سوال

ہمارے علاقوں میں دیہاتی علاقے جو فصل وغیرہ نہیں اُگا سکتے، ہم  ان کی غیرزرعی زمینوں کو اجارہ پر لیتے ہیں پھر آگے چرواہوں کو اجرت پر دیتے ہیں، کیا ان کے جو حاصلات پیسے وغیرہ ہیں،ہمارے لیے وہ جائز ہیں  یا ناجائز؟

جواب

واضح رہے کہ اجارہ پر لی ہوئی زمین کا آگے کسی اور کو اجارہ پر دینا  چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1:  مستاجر(کرایہ دار)کسی ایسے شخص کو زمين کرایہ پر نہ دے، جس کے کام سے اِس زمين میں نقصان ہو۔

2: زمين کا کرایہ، اصل کرایہ سے زیادہ نہ لے، ورنہ زیادتی اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، البته اگر دوسرا کرایہ پہلے والے کی جنس میں سے نہ ہو، مثلا پہلا کرایہ روپیہ میں ہو اور آگے کرایہ پر دیتے ہوئے کسی اور چیز پر کرایہ مقرر ہوا، یا کرایہ دار نے اس کرایہ کی زمين میں کچھ اضافی کام  کرایا ہو، تو ایسی صورت میں  وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر دوسرے کو کرایہ پر دے سکتا ہے۔

3: کرایہ دار اپنے لیے متعین پیداوار طے نہ کرے، یا تو اپنی زمین اجرت پر   دے دے اور اجرت طے کرلیں،  یا پیداوار میں فیصد کے اعتبار سے اپنا حصہ مقرر کریں۔

الدر المختار میں ہے:

"(و) بشرط (الشركة في الخارج)۔۔۔ 

و في الرد تحته: ثم فرع على الأخير بقوله (فتبطل إن شرط لأحدهما قفزان مسماة أو ما يخرج من موضع معين أو رفع)".

(‌‌كتاب المزارعة، ج:6، ص:276، ط:سعید)

المحیط البرھانی میں ہے:

"قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لايتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأنّ الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لاتطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله".

(‌‌كتاب الإجارات، ‌‌الفصل السابع في إجارة المستأجر، ج:7، ص:429، ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌وإذا ‌استأجر ‌دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة، وأما الكنس فإنه لا يكون زيادة وله أن يؤاجرها من شاء إلا الحداد والقصار والطحان وما أشبه ذلك مما يضر بالبناء ويوهنه هكذا في السراج الوهاج".

(كتاب الإجارة، الباب السابع في إجارة المستأجر، ج:4، ص:425، ط:رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411102146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں