بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کسی کو بطور ھدیہ کے دینا


سوال

میری والدہ کے ماموں کی ایک زمین تھی ،جو انہوں نے  اپنی زندگی ہی میں میری والدہ کو بطور ہدیہ دے دی تھی،مکمل قبضہ و تصرف کا حق دے دیا تھا ،اس کے بعد انہیں ماموں کے ایک بیٹے کی شادی کے اخراجات پوری کرنے کے لیے میری والدہ نے وہ گھر فروخت کرکے اس ماموں کے بیٹے کی شادی کروائی ،اب مذکورہ لڑکا(میری والدہ کے ماموں کا بیٹا)پندرہ سولہ سال بعد یہ دعوی کررہا ہےکہ اس زمین میں سے مجھے حصہ دیا جائےوہ میرے والد کی زمین ہے۔

وضاحت:مذکورہ ماموں کی اہلیہ کی طلاق ہوگئی تھی، اور ان کی شادی دوسری جگہ ہوئی، یہ لڑکا بھی انہی کے ساتھ شوہر  ثانی کے گھر پر مقیم رہا،پھر ان سے جدا ہو کر دوبارہ اپنے والد صاحب (میری والدہ کے ماموں )کے پاس آیا،لیکن انہوں نے اپنانے سے انکار کیا،پھر وہ لڑکا اپنی نانی کے ہاں رہائش پذیر تھا،اسی دوران ماموں کے انتقال کے بعد وہ اپنے والد کی دیگر زمینوں پر اختیار حاصل کرنے  کی کوشش کرتا رہابیٹے کی نسبت سے دیگر زمینیں وہ حاصل کرچکا ہے،البتہ اس زمین (جو کہ میری والدہ کو ہبہ کی دی تھی)پر اس کا دعوی قائم ہے،اسی طرح جس وقت ماموں میری والدہ کو ہدیہ کررہے تھے ،اس وقت اس لڑکے کی عمر سولہ سترہ سال تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتۃ  سائل کی والدہ کے ماموں نے سائل کی والدہ کو مذکورہ زمین مالکانہ حقوق کے ساتھ بطورِ ہدیہ   کے دی تھی ،تویہ وہ سائل کی والدہ ہی کی ملکیت ہے ،اس پر ماموں کے بیٹے کا کسی قسم کا حق نہیں،لہذاوالدہ کے ماموں کے بیٹے کا  اس زمین کے متعلق دعوی کرنا ناجائز ہے ۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عَنْ سَعِيد بْنِ زيد ، قال : سمعت النبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْه وسلّم يَقول : " من أخذ شبْرا من الْأَرْض ظلما فَإنه يطوقه يوم الْقيامة منْ سبع أرضين."

(کتاب المساقاۃ، باب تحریم الظلم وغضب الأرض وغيرها ج:5، ص:58، ط: دار المنهاج)

ترجمہ:جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(كتاب الهبة، ج:5، ص:690، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101298

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں