1:گھر کا ایک کمرہ ہے، کمرہ میں بیت الخلاء ہے، بیت الخلاء سے جب آدمی کمرے کی طرف آتا ہے تو جوتوں کے ساتھ بیت الخلاء کی تری لگ جاتی ہے، اس سے کمرے کی زمین گیلی ہوجاتی ہے.بچے بھی بعض اوقات کمرے میں پیشاب کرلیتے ہیں، اب اس کمرے کی خشک ریت اگر بچے ڈرم یا بالٹی وغیرہ میں ڈال دے تو اس ڈرم یا بالٹی کا پانی پاک ہوگا یا ناپاک؟
نیز زمین کس طرح پاک کریں گے ، کیا زمین خشک ہوجانے سے پاک ہوجاتی ہے؟ اگر ہے تو مسجد کی فرش یا زمین کا بھی یہی حکم ہے یا کوئی اور؟
2: اگر کسی آدمی سےمسجد کی جماعت رہ جائے تو کیا وہ گھر آکر اپنی ماں اور بیوی کو جماعت کراسکتا ہے، اگر ہاں تو اقامت اس میں ہوگی یا نہیں؟نیت اس کی کس طرح کریں گے ؟ نیز اس کو جماعت کاثواب ہوگا نہیں؟ نیز نامحرم بھی اس کے ساتھ جماعت میں شریک ہوسکتی ہے یا نہیں؟ جیسا کہ چچی زاد یا سالی وغیرہ بھی اس جماعت شریک ہوسکتی ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر جوتوں پر یقینی طور نجاست نہ لگی ہوئی ہو، تو صرف جوتے کے گیلے ہونے سے کمرے کی زمین ناپاک نہیں ہوگی، اسی طرح اگر بچوں نے کمرے میں پیشاب نہ کیا ہو تو صرف شک کی بنیاد پر کمرے کی زمین کو ناپاک نہیں کہا جائے گا، اور اگر بالفرض زمین پر کوئی ناپاک چیز لگ بھی جائے اور پھر اس طرح خشک ہوجائے کہ اس سے نجاست کا اثر اور بو زائل ہوجائے تو ایسی زمین خشک ہونے سے اور نجاست کے اثر کے زائل ہوجانے سے خود پاک ہوجاتی ہے، اگر بچے اس زمین کی مٹی کو ڈرم یا بالٹی میں ڈال دیں تو اس کا پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
نیز مسجد اور غیر مسجد کے پاک ہونے کا یہی حکم ہے، البتہ اگر زمین میں تری یا نجاست کا اثر اور بو موجود ہو ، نیز احتیاط بھی اس میں ہے کہ بہر صورت زمین یا فرش کو پاک کر لیا جائے، اسے پاک کرنے کے دو طریقے ہیں:
1۔ ا س پر پانی ڈال کر صاف کیا جائے، پھر کپڑے سے خشک کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے وہ پاک ہوجائے گا۔
2۔ مذکورہ فرش پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے اور پھر وہ خشک ہوجائے تو اس طرح بھی وہ پاک ہوجائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) تطهر (أرض) بخلاف نحو بساط (بيبسها) أي: جفافها ولو بريح (وذهاب أثرها كلون) وريح (ل) أجل (صلاة) عليها (لا لتيمم) بها؛ لأن المشروط لها الطهارة وله الطهورية.
(قوله: بيبسها) لما في سنن أبي داود باب طهور الأرض إذا يبست وساق بسنده عن «ابن عمر قال: كنت أبيت في المسجد في عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وكنت شابا عزبا، وكانت الكلاب تبول وتقبل وتدبر في المسجد ولم يكونوا يرشون شيئا من ذلك» اهـ ولو أريد تطهيرها عاجلا يصب عليها الماء ثلاث مرات وتجفف في كل مرة بخرقة طاهرة، وكذا لو صب عليها الماء بكثرة حتى لا يظهر أثر النجاسة شرح المنية وفتح. .. (قوله: أي: جفافها) المراد به ذهاب الندوة، وفسر الشارح به؛ لأنه المشروط دون اليبس كما دلت عليه عبارات الفقهاء قهستاني. وصرح به ابن الكمال عن الذخيرة. (قوله: ولو بريح) أشار إلى أن تقييد الهداية وغيرها بالشمس اتفاقي فإنه لا فرق بين الجفاف بالشمس أو النار أو الريح كما في الفتح وغيره. (قوله: كلون وريح) أدخلت الكاف الطعم، وبه صرح في البحر والذخيرة وغيرهما. (قوله: وله الطهورية) ؛ لأن الصعيد علم قبل التنجس طاهرا وطهورا وبالتنجس علم زوال الوصفين ثم ثبت بالجفاف شرعا أحدهما أعني التطهير فيبقى الآخر على ما علم من زواله، وإذا لم يكن طهورا لا يتيمم به. اهـ. فتح."
(1 / 311، باب الانجاس، ط: سعيد)
البحرالرائق میں ہے :
"وظاهر كلامهم أن الأرض التي جفت نجسة في حق التيمم طاهرة في حق الصلاة، والحق أنها طاهرة في حق الكل، وإنما منع التيمم منها لفقد الطهورية كالماء المستعمل طاهر غير طهور، وكان ينبغي للمصنف أن يقول: بمطهر؛ ليخرج ما ذكرنا كما عبر به في منظومة ابن وهبان، وللحديث الوارد من قوله صلى الله عليه وسلم: {جعلت لي الأرض مسجداً وطهوراً} بناءً على أن الطهور بمعنى المطهر، وقد تقدم الكلام فيه وفي المحيط والبدائع."
(1/ 155، كتاب الطهارة، سنن التيمم، ط: دارالكتاب الاسلامي)
2: عاقل بالغ مسلمان مرد کے لیے پنج وقتہ نماز جماعت سے ادا کرنا حکم کے اعتبار سے واجب ہے، قصداً جماعت ترک کرنے کی عادت بنانا موجبِ فسق اور گناہ ہے،اس لیے اگر محلے کی مسجد میں جماعت کا وقت نکل جائے تو کوشش کرے کہ کسی قریبی مسجد میں جماعت سے نماز مل جائے، تاہم اگر کسی عذر کی وجہ سے کبھی جماعت نکل جائے تو اس صورت میں تنہا نماز پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ گھر والوں کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا کرلے، اس سے جماعت کا ثواب مل جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ دو فریقوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے، واپس تشریف لائے تو جماعت ہوچکی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا فرمائی۔
لہٰذاصورتِ مسئولہ میں مرد اپنی بیوی اور والدہ کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھانا چاہے تو پڑھا سکتا ہے، اور گھر میں نماز کی جماعت میں صف بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد خود آگے کھڑا ہوجائے، اوراس سے پچھلی صف میں بیوی، والدہ یا جو گھر کی خواتین ہوں، کھڑی ہوں۔ نیز اگر اس جماعت میں مرد امام کی کوئی محرم خاتون ہو ، اور اس کے ساتھ نامحرم بھی پردہ کی رعایت رکھتے ہوئے شامل ہوجائیں تو جائز ہے، لیکن اگر اس جماعت میں امام کے علاوہ کوئی اور مرد نہ ہو، اور عورتوں میں بھی امام کی کوئی محرم نہ ہو، بلکہ صرف نامحرم خواتین ہوں تو ایسی صورت میں امام کے لیے صرف نامحرم خواتین کی امامت مکروہ ہے، اس سے اجتناب کیا جائے ۔
باقی گھر میں جماعت کرواتے وقت اذان و اقامت دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ محلہ کی اذان کافی ہے، البتہ افضل طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ ہی جماعت کروائی جائے اور اقامت اور امامت دونوں ہی مرد کو کرنی چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره، بحر."
(1/ 566 ، باب الإمامة، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100189
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن