میں نے چاچو کے ساتھ زمین خریدی جس کی دیکھ بھال اور بیع ان کے ذمہ ہے اگر وہ اس کے بیچنے کا ارادہ کریں تو کیا وہ میرے لیے مالِ تجارت بنے گا اور سالانہ زکاۃ کی تاریخ پر اس پر زکاۃ بنے گی۔
واضح رہے کہ زمین پر زکاۃ کے وجوب سے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جو زمین بیچنے کی نیت سے خریدی جائے اُس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے، اور جو زمین رہائش کی نیت سے خریدی جائے اُس پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی، اگر کوئی زمین رہائش کی نیت سے خریدی جائے پھر بعد میں اُس کو بیچنے کا ارادہ ہو جائے تو محض بیچنے کے ارادے سے اُس کی رقم پر زکاۃ واجب نہ ہو گی، بلکہ جب اُس کو بیچ دیا جائے پھر اُس کی رقم پر زکاۃ کے ضابطے کے مطابق زکاۃ واجب ہو گی،
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر زمین تجارت کی نیت سے نہیں خریدی گئی تھی تو اب اُس پر زکاۃ واجب نہیں ہےاگرچہ بعد میں چاچا کا ارادہ اسے فروخت کرنے کا بھی ہوجائے، اور اگر یہ زمین خریدی ہی تجارت کی نیت سے تھی اور یہی نیت بر قرار رہی تو اس زمین پر زکاۃ واجب ہے ۔
در مختار میں ہے:
"وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه: أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل۔"
(کتاب الزکاۃ ، باب السائمہ ، ص: 127، ط:دار الکتب العلمیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508101375
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن