بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 محرم 1447ھ 05 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

زمین کی تقسیم و حد بندی کیے بغیر ہبہ کرنے کا حکم


سوال

سسر نے اپنے گھر میں 1/5 حصہ بہو کو ہبہ کر دیا،  لیکن زندگی میں  اس ہبہ کی حدود مقرر کر کے علیحدہ نہیں کیا، اب وہ فوت ہو گئے ہیں،  کیا یہ ہبہ تام ہوا ہے یا نہیں؟  بہو اس ہبہ شدہ حصے کو لے سکتی ہے یا نہیں؟ اور 20 مرلہ میں 16 مرلے سے 1/5 حصہ لکھ ديا،  اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ اس کا حصہ گیٹ کے ساتھ والا ہو گا، کیا ہبہ میں گیٹ شریک ہو گا یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ  کسی بھی چیز کو ہبہ (گفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے  کہ ہبہ کرنے والا گفٹ شدہ چیز جس کو ہبہ کررہا ہے ، وہ اس  کے نام پر کرنے کے ساتھ  ساتھ اس  چیز کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی  اس شخص کو دے دے، اور ہبہ کے وقت گفٹ شدہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، صرف نام کردینے سے  شرعاً ہبہ درست نہیں ہوتا، نیز ہر چیز کا قبضہ اسی چیز کے حساب سے ہوتا ہے،   زمین کے قبضہ کے تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب (مالک) گفٹ شدہ  پلاٹ کی تقسیم اور حد بندی کرکے مکمل تصرف کے ساتھ زمین دیدے، اس طرح  کرنے سے  گفٹ مکمل  ہوجائے گا، اور جتنا حصہ مالک  نے ہبہ کیا ہو تو اتنے حصے سے اس کی  ملکیت ختم ہوجائےگی۔

صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ سسر نے  ہبہ کے وقت مذکورہ زمین کی حد بندی کرکے بہو کو اس کا  حصہ علیحدہ  کرکے مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ نہیں د یا تھا، بلکہ صرف تحریر کیا گیا تھا، اس لیے بہو کے حق میں وہ  ہبہ تام نہیں ہوا تھا، اور وہ مکمل  زمین بدستور سسر کی ملکیت میں ہی تھی،  لہذا  سسر کے انتقال کے بعد وہ مکمل زمین  بطورِ میراث تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة."

(‌‌كتاب الهبة، ج: 5، ص: 689، ط: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول)."

(كتاب الهبة، ج: 5، ص: 688، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط."

(کتاب الھبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج: 4، ص: 377، ط: رشیدیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لایثبت الملك للموهوب له الا بالقبض وهوالمختار، هکذافي فصول العمادیة."

(کتاب الهبة، الباب الثانی فیما یجوزمن الهبة ومالا یجوز، ج: 4، ص: 378، ط: رشیدیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لا يقسم ولا يبقى منتفعا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت الصغير والحمام الصغير ‌ولا ‌تصح ‌في ‌مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي."

(كتاب الهبة، الباب الثاني، ج: 4، ص: 376، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144612101009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں