فریق اول جو کہ زمین کے مالک ہیں فریق دوم جو خریدارہیں فریقین کے مابین معاہدہ طے پایا کہ فریق اول نے اپنی زمین فریق دوم کو بیس لاکھ پچیس ہزار میں فروخت کی، جس میں سے آٹھ لاکھ پچیس ہزار روپے بیعانہ کے طور پر فریق دوم نے ادا کئے اور ميعاد ایک سال اسٹام میں لکھ دی، لیکن زبانی طور پر فریقین میں یہ بات طے ہوئی کہ فریق اول کچھ عرصہ تک فریق دوم کوکچھ منافع دےکر زمین واپس خرید لے گا اور یہ کہ بقیہ رقم کی ادائیگی پر فریق دوم کو مجبور نہیں کرے گا، ایسے ہی تین سال گزر گئے فریقین میں سے کسی نے ایک دوسرے سے کوئی بھی مطالبہ نہیں کیا تین سال کے بعد فریق اول وفات پاگئے، اب فریق اول کے بچے فریق دوم سے بقیہ رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں، تو فريقِ دوم كی طرف سے کہا جاتا ہے آپ کے والد(فريقِ اول) نے یہ وعدہ کیا تھا کہ بقیہ رقم کا مطالبہ نہیں کریں گے، اور اگر یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ بیچ کر آپ کے پیسے واپس لوٹا دیتے ہیں تب بھی فریق دوم اس بات پر رقم کے ساتھ زیادتی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ شریعت مطہرہ کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں آیا یہ بیع درست ہے؟ اگر درست ہے تو اس کے تام کی کیا صورت ہو سکتی؟ اگر غلط ہے تو اس بیع کو تام کرنے کی کیا صورت ہو سکتی؟
صورتِ مسئولہ میں جب بائع (فریقِ اول) اور مشتری (فریقِ ثانی ) نے اپنی مرضی سے ایک قیمت متعین کر کے مبیع (زمین )کا ایجاب و قبول کیا اور ثمن کا ایک حصہ بیعانہ کے طور پر ادا کر دیا ،لیکن اس کےساتھ دونوں کے درمیان یہ شرط بھی رکھی گئی کہ بائع مشتری کو کچھ عرصہ تک منافع دے گا اور پھر اس زمین کو واپس خرید لے گا، یہ صورت شریعت کی اصطلاح میں بیع بالوفاء یا بیع الوفاء کہلاتی ہے،اور اس کا حاصل یہ ہے کہ دراصل یہ معاملہ بیع (خریداری) کے بجائے قرض کے بدلہ رہن سے فائدہ اٹھانے کا ہے جو کہ سود کے زمرے میں آنے کی وجہ سے ناجائز ہے،لہٰذا فریقین کے درمیان طے پانے والا معاملہ شرعا درست نہیں تھا، دونوں فریق اس معاملے پر جو منافع حاصل کرتے رہے اس پر توبہ واستغفار کریں، اب اس معاملے کو ختم کیا جائے،اور فریق ِ او ل کا انتقا ل ہو چکا ہے تو ایسی صورت میں اس کے ورثاء پر لازم ہے کہ مرحوم نے فریقِ دوم سے جتنی رقم لی ہے اتنی ہی رقم واپس کریں، اور فریقِ دوم نے اس زمین سے اگر منافع اٹھائے ہیں، ان منافع کی قیمت مرحوم کے ورثاء اور فریقِ دوم باہمی رضامندی سے طے کرکے فریق دوم فریقِ اول کے ورثاء کو ادا کرے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ومفاده أنهما لو تواضعا على الوفاء قبل العقد ثم عقدا خاليا عن شرط الوفاء فالعقد جائز ولا عبرة للمواضعةوبيع الوفاء ذكرته هنا تبعا للدرر: صورته أن يبيعه العين بألف على أن ه إذا رد عليه الثمن رد عليه العين، وسماه الشافعية بالرهن المعاد، ويسمى بمصر بيع الأمانة، وبالشام بيع الإطاعة، قيل هو رهن فتضمن زوائده، وقيل بيع يفيد الانتفاع به، وفي إقالة شرح المجمع عن النهاية: وعليه الفتوى وقيل إن بلفظ البيع لم يكن رهنا، ثم إن ذكرا الفسخ فيه أو قبله أو زعماه غير لازم كان بيعا فاسدا
مطلب في بيع الوفاء.
ووجه تسميته بيع الوفاء أن فيه عهدا بالوفاء من المشتري بأن يرد المبيع على البائع حين رد الثمن، وبعض الفقهاء يسميه البيع الجائز، ولعله مبني على أنه بيع صحيح لحاجة التخلص من الربا حتى يسوغ المشتري أكل ريعه، وبعضهم يسميه بيع المعاملة. ووجهه أن المعاملة ربح الدين وهذا يشتريه الدائن لينتفع به بمقابلة دينه. (قوله: وصورته إلخ) كذا في العناية، وفي الكفاية عن المحيط: هو أن يقول البائع للمشتري بعت منك هذا العين بما لك علي من الدين على أني متى قضيته فهو لي اهـ. وفي حاشية الفصولين عن جواهر الفتاوى: هو أن يقول بعت منك على أن تبيعه مني متى جئت بالثمن فهذا البيع باطل وهو رهن، وحكمه حكم الرهن وهو الصحيح اهـ. فعلم أنه لا فرق بين قوله على أن ترده علي أو على أن تبيعه مني. (قوله: بيع الأمانة) وجهه أنه أمانة عند المشتري بناء على أنه رهن أي كالأمانة.......(قوله: قيل هو رهن) قدمنا آنفا عن جواهر الفتاوى أنه الصحيح. قال في الخيرية: والذي عليه الأكثر أنه رهن لا يفترق عن الرهن في حكم من الأحكام. وقال السيد الإمام: قلت: للإمام الحسن الماتريدي: قد فشا هذا البيع بين الناس، وفيه مفسدة عظيمة، وفتواك أنه رهن وأنا أيضا على ذلك فالصواب أن نجمع الأئمة ونتفق على هذا ونظهره بين الناس، فقال المعتبر اليوم فتوانا، وقد ظهر ذلك بين الناس فمن خالفنا فليبرز نفسه وليقم دليله اهـ. قلت: وبه صدر في جامع الفصولين فقال رامزا لفتاوى النسفي: البيع الذي تعارفه أهل زماننا احتيالا للربا وسموه بيع الوفاء هو رهن في الحقيقة لا يملكه ولا ينتفع به إلا بإذن مالكه، وهو ضامن لما أكل من ثمره وأتلف من شجره ويسقط الدين بهلاكه لو بقي ولا يضمن الزيادة وللبائع استرداده إذا قضى دينه لا فرق عندنا بينه وبين الرهن في حكم من الأحكام اهـ، ثم نقل ما مر عن السيد الإمام. وفي جامع الفصولين: ولو بيع كرم بجنب هذا الكرم فالشفعة للبائع لا للمشتري؛ لأن بيع المعاملة وبيع التلجئة حكمهما حكم الرهن وللرهن حق الشفعة وإن كان في يد المرتهن."
(کتاب البیوع ، باب الصرفجلد: 5،ص : 275،276، 277 ط : سعيد)
البناية شرح الهداية میں ہے:
"(وإن مات البائع فالمشتري أحق به) ش: أي بالمبيع م: (حتى يستوفي الثمن لأنه يقدم عليه) ش: أي على البائع م: (في حياته فكذا) ش: يقدم م: (على ورثته وغرمائه بعد وفاته كالراهن) ش: فإنه إذا مات وله ورثة وغرماء فالمرتهن أحق بالرهن من الورثة والغرماء حتى يستوفي الدين."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج:3، ص: 52، ط: دار إحياء التراث العربي)
كفايت المفتي مىں هے:
’’سوال: ايك شخص نے زمین زراعتی و سکنی دوسرے شخص کی اس شرط پر خریدی کہ اگر میرا کل روپیہ رجسڑی شدہ پانچ سال کے اندر واپس کردو گے تو میں تمہاری خرید شدہ زمین واپس کردو ں گا، یہ بیع جائز ہے یا نہیں؟ اور اس زمین کی پیداوار اور کرایہ وغیرہ لینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب : یہ صورت وہی ہے جس کو عام طور پر بیع الوفاء کہا جاتا ہےا ور بیع الوفااس شرط سے جو سوال میں مذکور ہے بیع ِ فاسد اور حرام ہے۔‘‘
(کتاب الدیون، ج:۸، ص: ۱۴۹، ط :دار الاشاعت)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
’’اپنی مملوکہ زمین اس شرط پر فروخت کرتے ہیں کہ چند سال کی مدت میں جب روپیہ واپس کردیے جائیں گے ، تو زمین واپس لی جائے گی، اس کو عرف میں کٹ تبادلہ کہتے ہیں، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ متذکرہ بالا صورت جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً ومصلیاً:
واپسی کی شرط پر فروخت کرنا بیع فاسد ہے جائز نہیں ہے، اس کو بیع بالوفاء کہتے ہیں، جو کہ رہن کے حکم میں ہے، ایسی زمین سے مشتری کو نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم‘‘
(کتاب البیوع، باب البیع بالوفاء، ج: ۲۳، ط: ۵۴۵، ط: ادارۃ الفاروق)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144402101577
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن