بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کی آمدنی اگر اپنی اور اولاد کی خوراک میں صرف ہوجائے تو وہ زمین حاجتِ اصلیہ میں داخل ہوگی


سوال

ہم نے پہلےدرج ذیل سوال آپ کو ارسال کیا تھا لیکن آپ نے فرمایا تھاکہ تفصیل کے ساتھ بھیج دیں۔تو مزید تفصیل یہ ہے کہ اس زمین کی آمدنی کے علاوہ اس کی ماہانہ مزدوری تقریباً 15000 ہے اور نقدیت اس کے پاس نہیں ہے۔

سابقہ سوال:

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ  کے بارے میں کہ ایک آدمی کی جائیداد بھی ہے، جس سے آمدنی اتنی آتی ہے کہ  اس آمدنی سے اس کی اور اس کی اولاد کی سال بھر کی خوراک  کافی ہو جاتی ہے اور تقریباً 7 سے 8 ہزار روپے بچ بھی جاتے ہیں ،اس کہ علاوہ وہ کچھ مزدوری بھی کرتاہے جس سے گھر کی دیگر ضروریات پوری کرتا ہے۔تو کیا ایسا آدمی زکوٰۃ کا مستحق ہے کہ اس کو زکوٰۃ دی جائے؟اور کیا یہ زمین ضروریاتِ اصلیہ میں داخل ہے؟ ایک مفتی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ یہ زمین ضرورت اصلیہ میں داخل نہیں ہے لہذا وہ زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص کی زمین کی آمدنی اس  کی اور اس کی اولاد کی سال بھر کی خوراک میں صرف ہوجاتی ہے،تو یہ زمین اس کی ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہے،لہذا اگراس شخص کے پاس مذکورہ زمین اور دیگر ضروریاتِ اصلیہ(یعنی رہنے کا مکان،گھریلو برتن،کپڑے وغیرہ) سے زائد نصاب کے بقدر مال یا سامان موجودنہیں ہے،نیز وہ سید بھی نہیں ہے توشرعاً وہ شخص مستحقِ زکوۃ ہے،اس کو زکوۃ دی جاسکتی ہے۔

اور اگر نصاب کے برابر سونا یا چاندی یا رقم یا مالِ تجارت  یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنا سامان موجود ہے  جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جاتی ہے تو پھر زکوۃ لینا جائز نہیں ہوگا۔

باقی مذکورہ زمین کی آمدنی سے جو سات،آٹھ ہزار روپے بچ جاتے ہیں،تواگر یہ سات،آٹھ ہزار روپے   بچتے بچتے اتنے ہوجاتے ہیں کہ نصاب کے برابرپہنچ جاتے ہیں،تو اس صورت میں زکوۃ لینا جائز نہیں ہوگااوراگر وہ جمع نہیں ہوتے ہیں،بلکہ خرچ ہوجاتے ہیں،تو پھر زکوۃ لینا جائز ہوگا۔

رد المحتار میں ہے:

"هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."

(کتاب الزکوۃ ،ج:2، ص:339، ط:سعید)

وفيه ايضاّ:

"سئل محمد عمن له ‌أرض ‌يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى."

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:348، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں