بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

زمین کے ساتھ حق مرور اورحق شرب کی بیع


سوال

ہم پانچ بھائی ہیں،  ہمارے والد صاحب نے ہمارے درمیان اپنا گھر تقسیم کیا ہے،  جس میں ہر بھائی کو ایک کمرہ اور کچھ صحن ملا ہے،  درمیان میں دروازے تک پانچ فٹ کا راستہ،  اسی طرح  8*5پانچ  بائے  آٹھ کی ایک جگہ پانی کے استعمال کے لیے ہم سب نے مشترک رکھی ہے،  جس سے ہم سارے بھائی مشترکہ نفع اٹھاتے ہیں اور اسے استعمال کرتے ہیں،  ابھی ایک بھائی مجھے یعنی سائل کو اپنا حصہ کمرہ اور صحن بیچ رہا ہے،  لیکن اس میں جو مشترکہ راستہ اور پانی کی جگہ ہے اس کو بھی اس میں شمار کر رہا ہے کہ جتنے فٹ کا وہ راستہ ہے اسی طرح پانی کی جو جگہ ہے،  اس کو پانچ حصوں میں کر کے پھر اس کی قیمت لگا کر جتنی قیمت میرے حصے کی بنتی ہے،  اس کی بھی آپ قیمت ادا کریں گے اور کمرے کے ساتھ یہ بھی میں  آپ کو  فروخت کروں گا ، جب کہ میں اس مشترکہ راستے اور پانی کی جگہ میں پہلے سے شریک ہوں اور اس کا حصہ ملنے سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا اس پر میں الگ سے قبضہ نہیں کر سکتا،  کیوں کہ تقسیم سے ان مشترکہ چیزوں کا مقصد فوت ہو جائے گا،  شرعی طور پر اس مشترکہ راستے اور پانی کی جگہ میں سے  اس کا اپنا حصہ بیچنا کیسا ہے؟ اور اس کے بغیر مجھے کمرہ نہیں بیچے گا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں    مذکورہ بھائی  اگر سائل کو اپنے کمرے اور صحن کے ساتھ  مشترکہ  راستہ  اور پانی کا حق میں سے اپنے حصہ کی قیمت لگاکر فروخت کرتا ہے تو شرعاً یہ جائز ہے،  اس لیے کہ حق مرور  (راستہ کا حق)اور حق ِ شرب ( پانی  کا حق) کو زمین کے تابع کرکے فروخت کرنا جائز ہے،  اور مالک کو ویسے بھی یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ملکیتی چیز جس قیمت پر چاہے فروخت کرسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع حق المرور تبعا) للأرض (بلا خلاف و) مقصودا (وحده في رواية) وبه أخذ عامة المشايخ شمني وفي أخرى لا، وصححه أبو الليث ،(وكذا) ‌بيع (‌الشرب) وظاهر الرواية فساده إلا تبعا خانية وشرح وهبانية.

(قوله تبعا للأرض) يحتمل أن يكون المراد تبعا لأرض الطريق، بأن باع الطريق وحق المرور فيه، وأن يكون المراد ما إذا كان له حق المرور في أرض غيره إلى أرضه فباع أرضه مع حق مرورها الذي في أرض الغير والظاهر أن المراد الثاني؛ لأن الأول ظاهر لا يحتاج إلى التنصيص عليه، ولقولهم إنه لا يدخل إلا بذكره أو بذكر كل حق لها وهذا خاص بالثاني كما لا يخفى (قوله وبه أخذ عامة المشايخ) قال السائحاني وهو الصحيح، وعليه الفتوى مضمرات اهـ.... (قوله وكذا ‌بيع ‌الشرب) أي فإنه يجوز تبعا للأرض بالإجماع، وحده في رواية وهو اختيار بلخ؛ لأنه نصيب من الماء درر، ومحل الاتفاق ما إذا كان شرب تلك الأرض، فلو شرب غيرها ففيه اختلاف المشايخ كما في الفتح والنهر."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، 5/ 80، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611102171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں