بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کرایہ پر لینے کی صورت میں پیدوار میں مالک کا حصہ / عشر کا حکم


سوال

اگر ہم زمین رینٹ پر لیتے ہیں تو اس کی پوری کی پوری آمدنی ہم اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں یا اس میں سے کچھ زمین  کے مالک کو بھی دینا ہوگا؟اگر نہیں دیتے تو کیا یہ صورت جائز ہے؟  اگر جائز ہے تو پھر ایسی زمین کی پیداوار میں عشر کا کیا حکم ہے؟ مثال کے طور پر ہم نے ایک بیگہ زمین  پچاس ہزار روپے  سال کا رینٹ کے طور پر لیا اور اس میں ہم سبزی اگاتے ہیں؟

جواب

زمین  کرایہ پر لینے کی مختلف صورتیں ہیں ،اگر زمین صرف نقد روپے کے بدلے کرایہ پر لی گئی ہے ،جیساکہ سائل نے مثال میں ذکر کیا تو  یہ صرف ایک کرایہ داری کا معاملہ ہے ،اس میں مالک کو کرایہ کی مد میں طے ہونے والی رقم ہی دینا لازم ہے ،اس کے علاوہ زمین کی آمدنی سے مزید کچھ دینا لازم نہیں ،زمین کی تمام آمدنی / پیداوار کرایہ دار کی ہوگی۔

اور اس صورت میں عشر کا حکم یہ ہے کہ  پیداوار کا عشر کرایہ دار  پر لازم ہے،البتہ عشر  میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ زرعی زمین ان نہری زمینوں میں  سے ہےجن کے پانی کی قیمت حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے یا  کنویں یا تالاب یا ٹیوب ویل سے سیراب کی جاتی ہےتو اس میں    کل پیداوار کا بیسواں حصہ  (پانچ فیصد) ادا کرنا واجب ہوگا، اور اگر  یہ زمین بارانی ہے یا نہری ہے مگر  پانی کا خرچہ نہیں ، پانی مفت ہے تو پھر  اس میں عشر  (کل پیداوار کا دسواں حصہ) واجب ہوگا۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ وہ اخراجات جو  زمین کو کاشت کے قابل بنانے سے لےکر پیداوار حاصل ہونے اور اس کو سنبھالنے تک ہوتے ہیں  یعنی وہ اخراجات جو زراعت کے امور میں سے ہوتے ہیں،  مثلاً زمین کو ہم وار کرنے، ٹریکٹر چلانے، مزدور کی اجرت وغیرہ ، یہ اخراجات عشر ادا کرنے سے پہلے منہا نہیں کیے جا تے، بلکہ عشر  یا نصفِ عشر  اخراجات نکالنے سے پہلے  پوری پیداوار سے ادا کیا جائے گا۔

وفي تحفة الفقهاء :

"و أما إجارتهما بالدراهم و الدنانير في الذمة أو معينة فلايكون عقد مزارعة بل سمي إجارة."

(3/ 263الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

وفی الدر المختار مع رد المحتار  :

"والعشر على المؤجر كخراج موظف، وقالا: على المستأجر كمستعير مسلم. وفي الحاوي : وبقولهما نأخذ''

(قوله: وبقولهما نأخذ) قلت: لكن أفتى بقول الإمام جماعة من المتأخرين كالخير الرملي في فتاواه وكذا تلميذ الشارح الشيخ إسماعيل الحائك مفتي دمشق وقال: حتى تفسد الإجارة باشتراط خراجها أو عشرها على المستأجر كما في الأشباه، ... فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام، وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لايقول به أحد."

(الدر المختار مع رد المحتار: کتاب الزکاة، باب العشر، فروع فی زکاة العشر(2/ 334)، ط: سعید)

وفیه أیضًا:

(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة وفي كتب الشافعية أو سقاه بماء اشتراه وقواعدنا لا تأباه ولو سقى سيحا وبآلة اعتبر الغالب ولو استويا فنصفه وقيل ثلاثة أرباعه (بلا رفع مؤن) أي كلف (الزرع) وبلا إخراج البذر.

(وفی رد المحتار):

(قوله: لكثرة المؤنة) علة لوجوب نصف العشر فيما ذكر (قوله: وقواعدنا لا تأباه) كذا نقله الباقاني في شرح الملتقى عن شيخه البهنسي؛ لأن العلة في العدول عن العشر إلى نصفه في مستقى غرب ودالية هي زيادة الكلفة كما علمت وهي موجودة في شراء الماء ولعلهم لم يذكروا ذلك؛ لأن المعتمد عندنا أن شراء الشرب لا يصح وقيل إن تعارفوه صح وهل يقال عدم شرائه يوجب عدم اعتباره أم لا تأمل نعم لو كان محرزا بإناء فإنه يملك فلو اشترى ماء بالقرب أو في حوض ينبغي أن يقال: بنصف العشر؛ لأن كلفته ربما تزيد على السقي بغرب أو دالية."

(الدر المختار مع رد المحتار: کتاب الزکاة، باب العشر(2/ 328)، ط: سعید)

وفي مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر :

 (نصف العشر قبل رفع مؤن الزرع) بضم الميم وفتح الهمزة جمع المؤنة وهي الثقل والمعنى بلا إخراج ما صرف له من نفقة العمال والبقر وكري الأنهار وغيرها مما يحتاج إليه في الزرع."

(1/ 216كتاب الزكاة .باب زكاة الخارج ط:دار إحياء التراث العربي )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201728

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں