بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کا قبضہ چُھڑوانے کے لیے دو مسلمانوں کا آپس میں لڑنا


سوال

اگر کوئی شخص کسی کی زمین پر زبردستی قبضہ کرتا ہے اور زمین واپس لینے کے لیے لڑائی کے علاوہ كوئي اور حل نہیں ہے تو کیا یہ شخص اپني زمین واپس لینے كے ليے اس كے ساتھ لڑ سکتا ہے اور لڑائی کے دوران دونوں طرف سے بندے مر جا تے ہیں اور مرنے والے دونوں مسلمان ہیں تو کیا شریعت کے نزدیک مرنے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سب سے پہلے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ افہام و تفہیم سے معاملہ کو سلجھایا جائے اور لڑائی کی نوبت ہی نہ آئے ، اگر افہام و تفہیم سے بات نہ بنے تو قانون کی مدد سے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی جائے یا کسی اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت سے مدد لی جائے ۔ تاہم اگر کسی صورت بھی معاملہ حل نہ ہو پائے اور کوئی شخص حق پر ہو اور اپنے حق کے حصول کے لیے کوشش میں لگا ہوا ہو اور کوشش کرتے کرتے بات لڑائی جھگڑے اور مزاحمت تک پہنچ جائے اور اس لڑائی میں صاحبِ حق کے ہاتھوں کسی کا کچھ جانی نقصان ہو جائے تو یہ اپنے مال کے بچاؤ اور دفاع کی خاطر لڑنے والوں میں شمار ہوگا ، جس کی وجہ سے شریعت میں اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔ لیکن حتی الامکان کوشش یہی کرنی چاہیے کہ معاملہ اس حد تک نہ پہنچے کیوں کہ بعض اوقات ریاستی قوانین غیر موافق ہونے کی بناپر بندہ ایسی مشکلات میں پڑجاتا ہے کہ ان مشکلات سے چھٹکارہ حاصل کرنا انتہائی دشوار ہوجاتا ہے، اور ان مشکلات سے چھٹکارے میں اتنی خاطر خواہ رقم خرچ ہوجاتی ہے کہ پھر سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں رہتا۔ لہٰذ احالات اور مواقع کو دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر کوئی بھی اقدام کیا جائے۔ نیز ساتھ ساتھ مذکورہ وظیفہ کی کثرت کی جائے ان شاء اللہ زمین کا قبضہ چھوٹ جائے گا ۔

" اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْهِ  بِمَا شِئْتَ."

الدر المختار مع رد المحتار ميں ہے :

"(ومن دخل عليه غيره ليلا فأخرج السرقة) من بيته (فاتبعه) رب البيت (فقتله فلا شئ عليه) لقوله عليه الصلاة والسلام: قاتل دون مالك وكذا لو قتله قبل الأخذ إذا قصد أخذ ماله ولم يتمكن من دفعه إلا بالقتل."

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الجنايات، (ص: 702) ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں