ایک مسئلہ پیش آیا ہے، جو انتہائی حیران کن ہے۔ فرض کریں زید کو پیسوں کی سخت ضرورت ہے، وہ عمرو کے پاس آتا ہے اور عمرو سے کہتا ہے میرے پاس 5 ایکڑ زمین ہے وہ مجھ سے کرایہ پر لو اور مجھے پیسے دو، عمرو کرایہ پر لیتا ہے اور زید کو 5 لاکھ نقد دیتا ہے، زمین 5 سالہ کرایہ پر دی جاتی ہے، اور 5 سال کے بعد زید عمرو کے پاس آتاہے اور اسے کہتا ہے میری زمین دو، عمرو کہتا ہے میرے پیسے دو اور اپنا کرایہ لو، ہر سال فی ایکڑ کرایہ 2 ہزار ہے، اس طرح سے زید اپنے 50 ہزار کاٹتا ہے 5 سال کی اجرت، اور عمرو کو 4 لاکھ 50 ہزار واپس دے دیتا ہے۔
اب مسئلہ حیران کن یہ ہے کہ اگر زید کو عمرو صرف 50 ہزار (جو ان دونوں کے عقد کے مطابق زمین کاکرایہ بنتا ہے ) دیتا ہے عقد والے دن، تو زید اپنی زمین عمرو کو نہیں دے گا، اگر عمرو اتنی ہی رقم زید کو دے جتنی زید کو چاہیے تو تب زید اپنی زمین اجرت پر دے گا، اور اجرت کا ٹائم ختم ہونے کے بعد 50 ہزار کاٹ کر بقایا پیسے عمرو کو واپس دے دے گا، کیا شرعاً یہ صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے، تو جو بقایا ساڑے چار لاکھ روپیہ دے رہا ہے وہ کس چیز کے ہے؟ برائے مہربانی مدلل طریقے سے بتائیے گا۔
صورتِ مسئولہ میں عمر ونے جو پانچ لاکھ روپے زید کو دئیےتھے، وہ زید پر قرض تھے، ، لہذا مدت پوری ہونے کے بعد زید اپنی زمین کا مکمل کرایہ (پچاس ہزار ،پانچ لاکھ سےمنہا کرکے ) لے لے گا اور بقیہ ساڑھے چار لاکھ روپے عمرو کو واپس کردے گا، البتہ اس قرض کی وجہ سے مذکورہ زمین مارکیٹ ویلیو سے کم کرایہ پر لینا یا دینا جائز نہیں، اس لیے کہ قرض کے عوض میں کسی قسم کا مشروط نفع اٹھانا سود اور حرام ہے۔
النتف فی الفتاوى میں ہے:
"انواع الربا: واما الربا فهو ثلاثة اوجه: احدها في القروض، والثاني في الديون، والثالث في الرهون. الربا في القروض: فاما في القروض فهو على وجهين: احدها ان يقرض عشرة دراهم باحد عشر درهما او باثني عشر ونحوها. والآخر ان يجر الى نفسه منفعة بذلك القرض او تجر اليه وهو ان يبيعه المستقرض شيئا بارخص مما يباع او يؤجره او يهبه... ولو لم يكن سبب ذلك هذا القرض لما كان ذلك الفعل فان ذلك ربا وعلى ذلك قول ابراهيم النخعي كل دين جر منفعة لا خير فيه."
(انواع الربا، ج: 1، ص: 485،484، ط: مؤسسة الرسالة - بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"كل قرض جر نفعا، حرام.
وفي الرد: (قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."
(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، فصل فی القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج: 5، ص: 166، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602100483
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن