دو بھائیوں کی مشترکہ زمین تھی، ایک بھائی گاؤں چھوڑ کر چلا گیا اور کہا کہ اس زمین میں تم کھیتی باڑی کرلیاکرو،کاشت کاری کا خرچہ سب کا سب تمہاری طرف سے ہوگا،مجھے صرف فصل نکلنے پر مثلاً ایک من اسی فصل میں سے دے دینا، کیا یہ جائز ہے؟ اسی طرح پھلوں میں بھی خاص مقدار مقرر کرسکتے ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں ایک بھائی کااپنی زمین دوسرے بھائی کے حوالہ کرکے جانا اور اس کے کرایہ کے طور پر ایک من غلہ متعینہ اسی زمین کی فصل سے مقررکرناشرعاً درست نہیں ہے۔البتہ اگر بھائی اس زمین کے بدلے سالانہ یا شش ماہی ایک من گندم کسی زمین کو متعین کیےبغیر طے کرلے تو یہ معاملہ درست ہوگا۔
اسی طرح باغ دے کر اس کے بدلے خاص مقدار میں پھل لینا جائز نہیں ہے۔ اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ مالک زمین پہلے باغ کو بٹائی پر دے یعنی حصۂ معینہ( مثلاًپیداوار کے ایک تہائی حصہ یا نصف وغیرہ) پر دیدے، پھر اسی شخص کو باغ کی زمین اجارہ پر دیدے، اور جو حصہ باغ کے مالک نے باغ کے پیداوار میں اپنے لیے رکھا تھا، وہ کرایہ دار کے لیے مباح کرکے اُسے بخش دے،یا بٹائی کرنے والے کو اجازت دیدے کہ وہ حصہ اس باغ کے اخراجات میں لگادے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولو) (دفع غزلا لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء.والحيلة أن يفرز الأجر أولا أو يسمي قفيزا بلا تعيين ثم يعطيه قفيزا منه فيجوز."
محیطِ برہا نی میں ہے:
"وفي القدوري : إذا استأجر أرضا سنة فيها رطبة، فالإجارة فاسدة، فإن قلع رب الأرض وسلمها أرضا بيضاء فهو جائز، وقاسه على ما إذا باع الجذع في السقف ثم نزع الجذع وسلمه إلى المشتري، وإن اختصما قبل ذلك فأبطل الحاكم الإجارة ثم قلع الرطبة، فالمستأجر بالخيار، إن شاء قبضها على تلك الإجارة وطرح عنه أجر ما لم يقبض، وإن شاء ترك، هذا جملة ما ذكره في «القدوري» ، ثم الزرع إذا لم يدرك، وأراد جواز الإجارة في الأرض.
فالحيلة في ذلك: أن يدفع الزرع إليه معاملة، إن كان الزرع لرب الأرض على أن يعمل المدفوع إليه في ذلك بنفسه، وأجرائه وأعوانه على أن ما يرزق الله تعالى من الغلة، فهو بينهما على مئة سهم، سهم من ذلك للدافع، وتسعة وتسعون سهما للمدفوع إليه، ثم يأذن له الدافع أن يصرف السهم الذي له إلى مؤنة هذه الضيعة أو شيء أراد، ثم يؤاجر الأرض منه، وإن كان الزرع لغير رب الأرض ينبغي أن يؤاجر الأرض منه بعد مضي السنة التي فيها الزرع فيجوز، وتصير الإجارة مضافة إلى وقت في المستقبل."
(کتاب الإجارات،الفصل الخامس عشر،ج: 6، ص: 477، ط:دارالکتب العلمیة)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
”سوال : اگر کوئی آم کے باغ کا مالک دو چار سال کے لئے زمین اور درخت کسی کو دے دے تا کہ وہ زمین اور درختوں سے نفع اٹھائے ، پھل وغیرہ حاصل کرے اور مالکِ با غ بدلہ میں دو چار ہزار روپیہ لے لے تو درست ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلياً: اجارہ میں شئی مستاجرہ سے نفع حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے، نہ کہ استہلاک اعیان ۔ زمین میں کاشت کرنا اور اس سے غلہ حاصل کرنا تو اجارہ میں داخل ہے لیکن مالک زمین کے درختوں سے پھل حاصل کرنا یہ اجارہ میں داخل نہیں ، بلکہ یہ تو بیع ہوگی ۔ فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم ۔“
(کتاب الإجارة، باب الإجارات الصحیحہ،ج: 18، ص: 559، ط: ادارہ الفاروق)
فتاوی رشیدیہ میں ہے:
”زمین کو کرایہ پر دینا درست ہے خواہ نقد سے دیا جائے خواہ غلہ سے مگر خاص زمین کا نہ ٹھہرانا چاہیے بلکہ مطلق ہونا چاہیے جس جگہ کا چاہے ہو۔“
(کتاب الأجرة،اجرت کے مسائل،ص: 513، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلامی)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603102223
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن