زید نے عمر سے 1کروڑ کی زمین خریدی، شروع میں دس لاکھ دیے اور باقی پیسوں کا ٹائم رکھ دیا، ہر تین ماہ بعد 30لاکھ دوں گا، اب عمر نے زید کو زمین کا اختیار حوالہ کر دیا یعنی زید پورے پیسے دیے بغیراس زمین میں گھر یا پلاٹنگ یا زمین کو دوسرے پر فروخت کر سکتا ہے، کیا یہ درست ہے؟ رہی بات صرف عمر نے انتقال حوالہ نہیں کیا، کیوں کہ جب پیسے مکمل مل جائیں گے تب انتقال اس کو مل جائے گا۔
صورت مسئولہ میں پوری قیمت وصول کرنے سے پہلے عمر کا زید کے تصرف میں زمین دیناجائز ہے،لہذا زید کے لیے پورے پیسے دیئے بغیر اس پر گھر بنا سکتا ہے، پلاٹنگ کر سکتا ہے اور اسے کسی دوسرے کے ہاتھوں فروخت کرسکتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"للبائع حبس المبيع إلى قبض الثمن، ولو بقي منه درهم ولو المبيع شيئين بصفقة واحدة، وسمى لكل ثمنا فله حبسهما إلى استيفاء الكل، ولا يسقط حق الحبس بالرهن ولا بالكفيل، ولا بإبرائه عن بعض الثمن حتى يستوفي الباقي، ويسقط بحوالة البائع على المشتري بالثمن اتفاقا وكذا بحوالة المشتري البائع به على رجل عند أبي يوسف، وعند محمد فيه روايتان، وبتأجيل الثمن بعد البيع وبتسليم البائع المبيع قبل قبض الثمن فليس له بعده رده إليه."
(كتاب البيوع، ج4، ص561،ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144405100094
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن