بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

زمین اجارہ پر اس طور پر دینا کہ مستاجر بطورِ اجرت تعمیر وغیرہ کرکے دے گا / اجارہ فاسدہ میں منافع کا حکم


سوال

میں نے بیس ایکڑ زمین اجارہ پر لی ہے، اس کی صورت یہ  ہے کہ مالکِ زمین نے اپنی بنجر زمین میرے حوالہ کی  اور یہ معاہدہ ہوا تھا کہ میں  زمین  میں ٹیوب ویل اور  دس کمرے  بناؤں گا اور زمین بھی  ہموار  کروں گا، جب مدتِ اجارہ ختم ہو جائے گی تو یہ مذکورہ چیزیں مالکِ زمین کو بطورِ اجرت کے دوں گا، اس کے علاوہ تین سالوں میں میرے ذمہ کوئی اجرت نہیں ہے۔

1۔آیا اس طرح کا اجارہ کرنا درست  ہے یا نہیں؟

2۔ اس زمین سے میں نے تین سالوں میں کو منافع حاصل کیے  وہ میرے حلال ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو میرے لیے کیا حکم ہے؟

وضاحت : عقدِ اجارہ پورا ہو چکا ہے، مالکِ زمین کو مذکورہ چیزوں سمیت زمین واپس کردی گئی ہے۔

جواب

شرعاً عقدِ اجارہ کے صحیح ہونے کے    لیے اجرت کا معلوم  ہونا ضروری ہوتا ہے، اگر اجرت مجہول ہو تو  عقدِ اجارہ فاسد ہوجاتا ہے، صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ آپ نے اجرت  ٹیوب ویل، دس کمرے اور زمین کو ہموار کرنا بنائی ہے  ان چیزوں کے بنانے   پر کتنا خرچہ ہو گایہ مجہول ہے تو زمین کی  اجرت  بھی مجہول ہوئی، لہٰذا   اجرت  مجہول ہونے کی وجہ سے آپ کا مذکورہ عقدِ اجارہ  فاسد تھا جو کہ شرعاً جائز  نہیں ہے۔

2۔مذکورہ زمین سے آپ  نے جو منافع حاصل کئے ہیں شرعاً آپ کے لیے حلال ہیں، البتہ آپ کا مذکورہ زمین پر ٹیوب ویل اور  دس کمرے بنا کر اور زمین کو   ہموار کرکے  بطورِ اجرت  دینا درست نہیں ، بلکہ مذکورہ زمین جیسی بیس ایکڑ زمین کو تین سال استعمال کرنے کی وجہ سے  عرف میں عام طور پر جتنی اجرت بنتی ہو  اس کے ادائیگی  آپ کے ذمہ لازم  ہے، نیز مذکورہ چیزوں  پر    جتنی  رقم  خرچ ہوئی  ہے اس  کا مالکِ زمین سےمطالبہ کرنے کا آپ کو حق حاصل ہے۔

فتاویٰ شامی   میں ہے :

"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة".

(كتاب الإجارة ، شروط الإجارة ، ج : 6، ص : 5 ، ط : سعید)

وفيه ایضا :

"(وحكم الأول) وهو الفاسد (وجوب أجر المثل بالاستعمال) لو المسمى معلوما ابن كمال...(قوله وجوب أجر المثل).... والأجر يطيب وإن كان السبب حراما كما في المنية قهستاني، ونقل في المنح أن شمس الأئمة الحلواني قال تطيب الأجرة في الأجرة الفاسدة إذا كان أجر المثل، وذكر في المسألة قولين وأحدهما أصح فراجع نسخة صحيحة.....(قوله بالاستعمال) أي بحقيقة استيفاء المنفعة فلا يجب بالتمكن منها كما مر".

(كتاب الإجارة ، ‌‌باب الإجارة الفاسدة ، ج : 6 ، ص : 45/46)

وفيه ایضا :

"أنه ‌إذا ‌عمر ‌دار ‌زوجته لها فماتت وادعى أنه كان بإذنها ليرجع في تركتها بما أنفق وأنكر بقية الورثة إذنها أن القول قوله ووجهه شهادة العرف الظاهر له تأمل ".

(کتاب الخنثیٰ ، ‌‌مسائل شتى ، ج : 6 ، ص : 747)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وكذا إذا آجر أرضا وشرط كري نهرها أو حفر بئرها أو ضرب مسناة عليها؛ لأن ذلك كله على المؤاجر فإذا شرط على المستأجر فقد جعله أجرة وهو مجهول فصارت الأجرة مجهولة".

(كتاب الإجارة ، فصل في شرائط الركن ، ج : 6، ص : 22 ، ط : دار الکتب العلمیة)

تاتارخانیہ میں ہے :

"وفى الخانية: الإجارة إذا كانت فاسدة ووجب أجر المثل هل يجب بالغا ما بلغ ينظر إن كان فاسد الإجارة بجهالة المسمى من الأجر، أو لعدم التسمية يجب أجر المثل بالغا ما بلغ، وكذا لو استأجر دارا، أو حانوتا سنة بمائة درهم على أن يرمها المستأجر كان على المستأجر أجر المثل بالغا ما بلغ".

(كتاب الإجارة ، الفصل الخامس عشر في بيان ما يجوز من الإجارات ومالا يجوز، ج : 15 ، ص : 101 ، ط : زکریا دیوبند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں