بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومت سے اپنی ہی زمین واپس خریدنا


سوال

 حکومت وقت نے کئی سال پہلے ہمارے علاقے کے مکانات کو جبراً ہٹا کے زمینوں پر قبضہ کرلیا تھا،صرف ایک مسجد اور ایک مدرسہ باقی رہ گیا تھا،اب پوچھنا یہ ہےکہ اس طرح غصب شدہ زمین کو حکومت سے واپس خرید نے سے ملکیت ثابت ہو گی یا حکومت  عاریتاًدے دےتورکھ سکتےہیں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر وہ زمین اہل علاقہ کی ملکیت میں تھی، حکومت نے جبراً گھر ہٹا کر زمین پر قبضہ کر لیا تھا تو یہ قبضہ کرنا شرعاً درست نہیں تھا، اس سے حکومت اس زمین کی مالک نہیں بنی تھی، وہ زمین بدستور اہل علاقہ کی ملکیت میں رہے گی۔ دوسروں کی مملوکہ زمین پر زبردستی  قبضہ کرلینا غصب میں داخل ہے، حکومت پر لازم ہے کہ وہ اہل علاقہ کو  بلا معاوضہ ان کی زمین واپس کردے، پھر اگر حکومت واپس دینے کے لیے کچھ پیسوں کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ رشوت  کے حکم میں ہوگا جو کہ ناجائز اور حرام ہے، اور یہ دینا ضروری نہیں ہے، پھر بھی اگر حکومت بغیر پیسوں کے واپس نہ کرے تو  پیسے دینے کی وجہ سے جن کی زمین ہے  وہ   گناہ گار نہیں ہوں گے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو خلط ‌السلطان المال المغصوب بماله ملكه فتجب الزكاة فيه ويورث عنه) ؛ لأن الخلط استهلاك إذا لم يمكن تمييز عند أبي حنيفة، وقوله أرفق إذ قلما يخلو مال عن ‌غصب وهذا إذا كان له مال غير ما استهلكه بالخلط منفصل عنه يوفي دينه وإلا فلا زكاة، كما لو كان الكل خبيثا كما في النهر عن الحواشي السعدية

(قوله: عند أبي حنيفة) أما على قولهما ضمان، وحينئذ فلا ‌يثبت ‌الملك؛ لأنه فرع الضمان، ولا يورث عنه؛ لأنه  مال مشترك وإنما يورث عنه حصة الميت منه فتح".

(‌‌‌‌كتاب الزكاة،باب زكاة الغنم،ج:2،ص:290،ط:دار الفكر بيروت)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے: 

"ولذا قالوا: لو أن سلطانا ‌غصب مالا وخلطه صار ملكا له حتى وجبت عليه الزكاة وورث عنه على قول أبي حنيفة؛ لأن خلط دراهمه بدراهم غيره عنده استهلاك أما على قولهما فلا فلا يضمن فلا ‌يثبت ‌الملك؛ لأنه فرع الضمان فلا يورث عنه؛ لأنه مال مشترك فإنما يورث حصة الميت منه وفي الولوالجية وقوله: أرفق بالناس؛ إذ قلما يخلو مال عن ‌غصب اهـ

(قوله ولذا قالوا: لو أن سلطانا ‌غصب مالا وخلطه إلخ) أي خلطه بماله أما إذا لم يكن له مال وغصب أموال الناس وخلطها ببعضها فلا زكاة عليه لما في القنية لو كان الخبيث نصابا لا يلزمه الزكاة؛ لأن الكل واجب التصدق عليه فلا يفيد إيجاب التصدق ببعضه، ومثله في البزازية قال في الشرنبلالية وبه صرح في شرح المنظومة ويجب عليه تفريغ ذمته برده إلى أربابه إن علموا وإلا إلى الفقراء (قوله: وهو قيد حسن إلخ) قال في النهر: وينبغي أن يقيد بما إذا لم يكن له مال غيره يوفي منه الكل أو البعض فإن كان زكى ما قدر على وفائه ثم رأيته في الحواشي السعدية قال: محمل ما ذكروه ما إذا كان له مال غير ما استهلكه بالخلط يفضل عنه فلا يحيط الدين بماله، وهذا طبق ما فهمته، ولله - تعالى - المنة. اهـ.

قلت: وقد رأيت ما يفيده في الفصل العاشر من التتارخانية حيث قال عن فتاوى الحجة: ومن ملك أموالا غير طيبة أو ‌غصب أموالا وخلطها ملكها بالخلط ويصير ضامنا، وإن لم يكن له سواها نصاب فلا زكاة عليه في تلك الأموال، وإن بلغت نصابا؛ لأنه مديون، ومال المديون لا ينعقد سببا لوجوب الزكاة عندنا اهـ".

(كتاب الزكاة،شروط وجوب الزكاة،ج:2،ص:221،ط:دار الكتاب الإسلامي)

 سنن أبی داود  میں ہے:

’’عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»‘‘.

(کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة،ج:3،ص:300، رقم الحدیث: 3580،ط: المکتبة العصریة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں