زید کی زمین ہے جو پلاٹنگ کر کے فروخت کرتا ہے اور عمر کے زید کے ساتھ یہ معاملات طے ہو جاتے ہیں کہ زید کہتا ہے کہ فی پلاٹ آپ کو ڈھائی لاکھ کا دیتا ہوں، آگے آپ تین لاکھ یا ساڑھے تین لاکھ یا اضافی رقم پر فروخت کریں، وہ اضافی رقم جو ڈھائی لاکھ سے اوپر ہو گی وہ آپ کی ہو گی، اب عمر جب وہ پلاٹ کسی گاہک کو فروخت کرتا ہے تو کہتا ہے مثلاً میں زید (جو اصل مالک ہے) سے آپ کو تین لاکھ کا لے کر دیتا ہوں، اور گاہک سے رقم لے کر کبھی تو اُن کے سامنے مالک کے دفتری ذمہ دار کو، جو ان امور کی انجام دہی کے لیے مقرر ہوتا ہے، حوالہ کر دیتا ہے، اور بعد میں دفتری ذمہ دار سے اپنا حصہ وصول کر لیتا ہے، اور کبھی گاہک کی غیر موجودگی میں اپنا حصہ رکھ کر بقیہ طے شدہ رقم مالک کو دے کر رسید پر اتنی ہی رقم لکھ دی جاتی ہے جتنے پر گاہک کو فروخت کی گئی ہے، تو معلوم یہ کرنا ہے کہ عمر کا یہ نفع جو مالکان سے طے کر کے گاہک سے کمایا جاتا ہے، درست ہے؟ یعنی حلال ہے یا حرام؟
دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ عمر کا پلاٹ میں دس یا بیس یا تیس ہزار روپے بطور کمیشن اسٹیٹ ایجنسی والوں سے طے ہوتا ہے ، تو عمر جب گاہک لاتا ہے تو اس کے بھاگ دوڑ ، فون کرنے یا گاڑی کے استعمال وغیرہ کے عوض جو رقم معاہدہ کے مطابق عمر کو ملتی ہے، یہ رقم عمر کے لیے حلال ہے یا حرام؟
صورتِ مسئولہ میں جب عمر کسی کو زید کا پلاٹ دلواتا ہے اُس وقت چونکہ عمر کی اُجرت (کمیشن) متعین نہیں ہوتی، بلکہ مجہول ہوتی ہے، اس لیے زید اور عمر کا مذکورہ معاملہ کرنا شرعاً عقدِ فاسد ہو گا، اور زید کے لیے اپنے عمل کے عوض اُجرتِ مثل ہو گی، ہاں! اگر زید اور عمر باقاعدہ خرید و فروخت کا معاملہ کر لیتے ہیں یعنی زید اپنا پلاٹ عمر کو ڈھائی لاکھ روپے کا فروخت کر دیتا ہے اور حقِ تصرف بھی دے دیتا ہے، اِس کے بعد عمر اپنی مرضی سے اُس کو فروخت کرتا ہے تو یہ صورت جائز ہو گی اور ڈھائی لاکھ کے اوپر جتنا منافع ہو گا وہ عمر کے لیے حلال ہو گا۔
باقی زید کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ گاہک سے کوئی خلافِ واقعہ بات کہے یا ایسی کوئی بات کہے جس سے گاہک کو یہ تاثر دیا جائے کہ زید عمر سے ہی تین لاکھ کا پلاٹ لے رہا ہے، ورنہ یہ جھوٹ ہو گا، جو دنیا میں بے برکتی اور آخرت میں عذاب کا باعث ہو گا۔
اگر زید، عمر کو اپنے پلاٹ فروخت کرنے کے لیے کمیشن ایجنٹ مقرر کر لیتا ہے اور اُس کا کمیشن بھی متعین کر دیتا ہے مثلاً بیس ہزار روپے، تو زید اور عمر کا مذکورہ معاملہ کرنا شرعاً درست ہے اور اس صورت میں عمر جو کمیشن وُصول کرے گا وہ اُس کے لیے حلال ہو گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة".
(کتاب الاجارۃ، 6/ 63، ط: سعید)
«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» میں ہے:
«(أما) وجوب أجر المثل للمعين؛ فلأنه استوفى منفعته بعقد فاسد، وأنه يوجب أجر المثل»
(6/ 63/دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100391
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن