بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین فروخت کرنے کے نو سال بعد بائع کا کچھ زمین کا استثناء کرنا


سوال

پچیس سال قبل ایک شخص کی وفات ہوئی، تو ورثاء میں صرف ان کی بیٹیاں اور چار بھائی تھے۔ بمطابق شرع بیٹیوں کو دو تہائی اور چار بھائیوں کو ایک تہائی حصہ مل گیا۔ آئندہ سالوں میں یہ چاروں بھائی یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے تو ان چاروں بھائیوں کی اولاد میں ان کی ذاتی ملکیتی جائیدادوں کے ساتھ ساتھ وہ ایک تہائی حصہ (جو انہیں اپنے بھائی سے ملا تھا) بھی منتقل ہوتا گیا۔

سات سال پہلے (انہی بھائیوں کی اولاد میں سے) ایک فرد نے اپنے تمام چچا زاد بھائیوں سے ان کی ساری وراثتی جائیداد خرید لی۔ خریدنے کا معاملہ ہر ایک فرد کے ساتھ گواہان کی موجودگی میں اس طرح ہوا کہ ’’میں آپ سے جملہ میراث، جس میں کوٹھا جات، گھر، راستہ اور زمین وغیرہ جو کچھ بھی ہیں، خرید رہا ہوں‘‘۔ فریقین کی باہمی رضامندی سے جائیداد کا سرکاری انتقال وغیرہ بھی ہو گیا اور خریدنے والے نے اس میں سے کچھ حصہ آگے بھی بیچ دیا۔

سات سال بعد اب فروخت کنندگان میں سے کچھ افراد کا یہ دعویٰ ہے کہ ’’ہم جس وقت آپ کو جملہ میراث بیچ رہے تھے تو اپنی دانست میں صرف والد صاحب کی ملکیتی زمین کا سودا کر رہے تھے،، چچا سے وراثتی طور پر ہمارے والد کو ملنے والا حصہ اس خریداری کے معاہدے میں شامل نہیں تھا، لہٰذا اُس حصے کو اِس معاہدہ سے مستثنیٰ سمجھا جائے۔ اس کو ہم فروخت شدہ میراث میں شامل نہیں سمجھتے بلکہ ہم تو اُس حصے کو چچا کی بیٹیوں کو ہی تحفتاً دینا چاہتے ہیں‘‘۔ جبکہ خریدنے والا کہتا ہے کہ ’’معاہدے کے دوران ہم نے کاغذ پر جملہ میراث کی جو بات لکھی تھی اس سے آپ کے والد صاحب کی جملہ میراث مراد تھی، کسی استثنیٰ کے بغیر۔

فریقین اس امر پر متفق ہیں کہ جس وقت مذکورہ معاہدہ ہو رہا تھا اُس وقت فریقین میں سے کسی کی طرف سے بھی یہ وضاحت نہیں ہوئی تھی کہ اس میں کون سا حصہ شامل ہے اور کون سا نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس رقبہ کا مالک کون ہے؟ کیا یہ اس کی ملکیت ہے جس نے جملہ میراث خریدی یا یہ پرانے مالکان کا ہے جو اب یہ رقبہ چچا کی بیٹیوں کو ہبہ کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ یہ ھبہ کر سکتے ہیں؟

جواب

شریعت میں دعویٰ کرنے والے پرگواہوں کا پیش کرنالازم ہے ،اور اگر مدعی (دعویٰ کرنےوالے)کے پاس گواہ نہ ہوں تومدعی علیہ(جس پر دعویٰ کیا جائے)سے قسم لی جائے گی، نیز جو شخص اپنی ملکیت کا اثبا ت کرے وہ مدعی اور جو اس کا انکار کرے وہ مدعی علیہ ہے ۔

لہٰذا  فریقین میں سے مشتری(زمین خریدنے والا) مدعی ہے ،کیوں کہ وہ تمام  زمین میں اپنی ملکیت کے ثبوت کا دعوی  کر رہا ہے جبکہ  بائع (زمین فروخت کرنے والا) مدعی علیہ ہے ، کیوں کہ وہ اپنی بعض زمین کو فروخت نہ  کرنے کا دعوی کر رہا  ہے ۔ تو قاعدہ کی رو سے مدعی (مشتری )کے ذمہ گواہ لازم ہے۔اس صورت میں   دونوں فریقین کو چاہیے کہ عدالت میں یامستند مفتی یا ماہر عالم دین  کوفیصل مقررکرکےان کے سامنے  اپنا معاملہ رکھیں  اور پھر مذکورہ دعوی کرنےوالا مشتری (زمین کا خریدار) اپنے دعوے کو شرعی گواہوں سے ثابت کریں ،اگر وہ اپنے دعوے کو شرعی گواہوں سے ثابت کردیں، تب تو مذکورہ زمین مشتری  کی ملکیت ہوگی۔

اور اگر وہ اپنے دعوے کو گواہوں کے ذریعے ثابت  نہ کرسکے، تو مدعی علیہ(زمین کو فروخت کرنے والوں میں  سے بعض  افرادجو کچھ زمین کو فروخت کرنے کا انکا ر کررہے ہیں) اس بات پر قسم کھائیں کہ انہوں نے اپنے اپنے والد کی موروثی زمین  فروخت نہیں کی،  صرف وہ زمین فروخت ہے جو والد کی اپنی خریدی ہوئی تھی  اور موروثی  زمین ہماری  ملکیت ہے،اگرمذکورہ افراد  یہ قسم کھا لیں تو مذکورہ زمین کے اس حصے کے مالک وہ ہوں گے ، وہ جس طرح چاہے تصرف کریں ،اور اگر قسم کھانے سے انکار کردیں تب بھی مشتری کے حق میں فیصلہ کردیا جائےگا۔

البنایہ میں ہے :

قال: "المدعي من لا يجبر على الخصومة إذا تركها والمدعى عليه من يجبر على الخصومة" ومعرفة الفرق بينهما من أهم ما يبتنى عليه مسائل الدعوى، وقد اختلفت عبارات المشايخ رحمهم الله فيه، فمنهاما قال في الكتاب وهو حد عام صحيح. وقيل المدعي من لا يستحق إلا بحجة كالخارج، والمدعى عليه من يكون مستحقا بقوله من غير حجة كذي اليد، وقيل المدعي من يتمسك بغير الظاهر والمدعى عليه من يتمسك بالظاهر.(وهو حد عام صحيح) ش: أما عمومه فلأنه يتناول كل حد من الحدود التي ذكرت في المدعي والمدعى عليه، وأما صحته فلأنه جامع مانع على ما لا يخفى

(تعریف الدعوی وارکانھا،ج۔۹،ص۔۳۱۴،ط۔دارالکتب العلمیہ)

 بدائع الصنائع میں ہے:

فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه لقوله - عليه الصلاة والسلام - «البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه» جعل - عليه الصلاة والسلام - البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه والمعقول كذلك لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره وللبينة قوة الإظهار.

(کتاب الدعوی/ج:6/ص:225/ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

وحكم هذا الحكم يفارق حكم القاضي المولى من حيث إن حكم هذا الحكم إنما ينفذ في حق الخصمين ومن رضي بحكمه، ولا يتعدى إلى من لم يرض بحكمه بخلاف القاضي المولى.

(کتابٲدب القاضی،الباب الرابع والعشرون في التحكيم، ج3/397،ط:رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100550

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں