بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین دلاتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی مسئلہ ہوا تو میں ذمہ دار ہوں‘ پھر معلوم ہوا کہ زمین قبضے کی ہے


سوال

 زید نے عمرو کو ایک پلاٹ دکھایا کہ یہ کسی آدمی کا ہے وہ بیچنا چاہ رہا ہے؛ آپ اگر لینا چاہیں تو آپ کے لیے خرید لیتے ہیں ۔ عمرو نے کہا کہ اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں ؟ زید نے جواب دیا نہیں، یہ بالکل کلیر ہے، اس میں کوئی مسئلہ ہوا تو میں ذمہ دار ہوں۔ عمرو نے کہا ٹھیک ہے، آپ ان سے بات کریں۔اگلے دن زید نے بتایا کہ ان سے بات ہوگئی ہے، انہیں میں نے پچاس ہزار ٹوکن بھی دیا ہے۔ عمرو اس دن زید کے پاس پہنچ گیا اور کہا اس کی فائل وغیره کہاں ہے ؟ زید نے بتایا کہ یہ تواللہ بخش گوٹھ کی قبضے والی جگہ ہے، اس کا اسٹام پیپر ہوتا ہے، فائل نہیں۔ اس پر عمرو نے کہا کہ قبضے کی جگہ کی تو شرعاً خرید و فروخت درست نہیں اس لیے میں نہیں لیتا اور اس وقت ایک مفتی صاحب سے زید کے سامنے پوچھا کہ یہ خرید و فروخت جائز ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں قبضے والی جگہ پر کیسے درست ہے ؟ اس پر عمرو نے وہ جگہ لینے سے انکار کیا ؟ زید نے کہا چلو ایسا کرتے ہیں کہ یہ پلاٹ میں رکھ لیتا ہوں لیکن آپ مجھے تین لاکھ ایک ماہ کے لیے ادھار دیں۔ عمرو نے اس پر بھی رضامندی کا اظہار نہ کیا ۔ اس معاملے کو ایک مہینہ گزر چکا ہےاب زید کا کہنا ہے کہ میں نے پچاس ہزار بیعانہ دیا تھا وہ عمرو مجھے ادا کرے جبکہ زید کا کہنا ہے کہ مجھے کہا گیا یہ جگہ کلیر ہے حالانکہ وہ قبضے والی ہے اور میرے اوپر بیعانہ کی رقم شرعاًلازم نہیں ،آپ شریعت کی رو سے اس مسئلے کا جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ جگہ واقعتاً قبضہ کی جگہ ہے، مالکانہ جگہ نہیں ہے اور مالکانہ دستاویز بھی نہیں ہیں جس وجہ نے عمرو نے مذکورہ زمین کا سودا کرنے سے انکار کر دیا تو عمرو کا انکار کرنا درست تھا۔ زید کو چاہیے تھا کہ عمرو کو زمین کی نوعیت اور دستاویزات کے بارے میں پوری آگاہی دے کر عمرو سے اجازت لے کر  بیعانہ دیتا لیکن جب اس نے ایسا نہیں کیا اور عمرو نے منع کردیا لہذا  عمرو زید کو بیعانہ کی رقم  دینے کا پابند نہیں ہے اور زید اپنے قول  ’’ اس میں کوئی مسئلہ ہوا تو میں ذمہ دار ہوں‘‘ کے مطابق  بیعانہ کی رقم جو اس نے بائع کو ادا کی تھی؛ زید سے مانگنے کا حقدار نہیں ہے بلکہ بائع سے مانگنا چاہیے، بائع سے  واپس نہ ملنے کی صورت میں خود نقصان برداشت کرے گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) تنعقد (بضمنته أو علي أو إلي)."

(۵ ؍ ۲۸۶، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100784

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں