بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمانہ حفظ میں تلاوت کی گئی آیاتِ سجدہ یاد نہ ہوں تو کیا حکم ہے؟


سوال

میں جب حفظ کررہا تھا تو میرے سجدے تلاوت  رہ گئے تھے تو ان سجدوں کا کیا کریں؟

جواب

واضح رہے کہ نابالغ بچے پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے، خواہ وہ خود تلاوت کرے یا کسی اور سے آیت سجدہ سن لے، اس لیے زمانہ حفظ میں اگر آپ بالغ نہیں ہوئے تھے  تو اس زمانے میں آیاتِ سجدہ پڑھنے کی وجہ سے آپ کے اوپر سجدہ کرنا لازم ہی نہیں۔

اور اگر آپ زمانہ حفظ میں بلوغت  کو پہنچ چکے تھےتو آپ پر لازم ہے کہ  اندازا لگائیں، اور غالب گمان کے مطابق کچھ زیادہ تعداد مقرر کرکے  اس کے مطابق سجدہ تلاوت ادا کریں، تاخیر کی وجہ سے  سجدہ تلاوت معاف نہیں ہوں گے۔

 لڑکے  کے بالغ ہونے کی علامات میں سے یہ ہے کہ اسے احتلام ہوجائے، یاانزال ہوجائے یا اس کے جماع کرنے کی وجہ سے بیوی حاملہ ہوجائے۔ اگر اس طرح  کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو قمری اعتبار سے پندرہ سال عمر مکمل ہونے پر بالغ ہونے کا حکم ثابت ہوجاتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وبلوغ الغلام بالاحتلام، والإحبال، والإنزال ... فحتی یتم لکل منهما خمس عشرة سنةً".

(الدرالمختار، کتاب الحجر، فصل بلوغ الغلام بالاحتلام،  ۶/ ۱۵۳)

فتاوی شامی میں ہے:

" وتجب ... (على من كان) متعلق بيجب (أهلاً لوجوب الصلاة)؛ لأنها من أجزائها (أداء) كالأصم إذا تلا، (أو قضاءً) كالجنب والسكران والنائم، (فلا تجب على كافر وصبي ومجنون وحائض ونفساء قرءوا أو سمعوا)؛ لأنهم ليسوا أهلاً لها، (وتجب بتلاوتهم) يعني المذكورين (خلا المجنون المطبق) فلا تجب بتلاوته؛ لعدم أهليته.

(قوله: وتجب بتلاوتهم) أي وتجب على من سمعهم بسبب تلاوتهم ح. (قوله: يعني المذكورين) أي الأصم والنفساء وما بينهما (قوله: خلا المجنون) هذا ما مشى عليه في البحر عن البدائع. قال في الفتح: لكن ذكر شيخ الإسلام أنه لايجب بالسماع من مجنون أو نائم أو طير؛ لأن السبب سماع تلاوة صحيحة، وصحتها بالتمييز ولم يوجد، وهذا التعليل يفيد التفصيل في الصبي، فليكن هو المعتبر إن كان مميزاً وجب بالسماع منه وإلا فلا اھ  ـ واستحسنه في الحلية". (2/ 107)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں