بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمانۂ نبوی ﷺ میں حد سرقہ کا نفاذ


سوال

حضور ﷺ کے زمانہ میں حدِ سرقہ کا نفاذ ہوا تھا یا نہیں؟ اور اگر ہوا تو کس سنِ ہجری میں؟

جواب

نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں حد سرقہ کا نفاذ ہوا تھا، جس کا واقعہ مشہور ہے کہ بنی مخزوم قبیلے کی ایک عورت نے چوری کی اور پکڑی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، لیکن چوں کہ وہ بڑے خاندان کی عورت تھی؛ اس لیے اس کے خاندان کے لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ (جو کہ رسول اللہ ﷺ کو نہایت محبوب تھے) کو اس عورت کو معاف کرنے کی سفارش کرنے کے لیے حضور ﷺ  کے پاس بھیجا،حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ  نے جب جنابِ  رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں گفتگو کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تم اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود  میں  سے ایک حد میں سفارش کرتے ہو؟ تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فورًا عرض کیا کہ : اے اللہ کے رسول! میرے لیے بخشش کی دعا کیجیے، پھر آپ  ﷺ  نے خطبہ دیا کہ  "اے لوگو! تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں کوئی معزز شخص چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور اگر کوئی عام آدمی یہ کام کرتا تو اسے سزا دیتے تھے ،اللہ کی قسم ہے اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتی تو  میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا،"  اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا،  چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے اس عورت کے ہاتھ کاٹے گئے۔

یہ واقعہ سن  ۸ ھجری میں فتحِ مکہ کے موقع پر پیش آیا تھا۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (5 / 373):

"لما في الصحيحين من حديث عائشة -رضي الله عنها- «أنّ امرأةً كانت تستعير المتاع وتجحده، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم بقطعها» وجماهير العلماء أخذوا بهذا الحديث.

وأجابوا عن حديث عائشة بأن القطع كان عن سرقة صدرت منها بعد أن كانت أيضا متصفة مشهورة بجحد العارية فعرفتها عائشة بوصفها المشهور، فالمعنى امرأة كان وصفها جحد العارية فسرقت فأمر بقطعها بدليل أن في قصتها «أن أسامة بن زيد شفع فيها الحديث، إلى أن قال: فقام عليه الصلاة والسلام خطيبا فقال إنما هلك من كان قبلكم بأنهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه، وإذا سرق فيهم الضعيف قطعوه» وهذا بناء على أنها حادثة واحدة لامرأة واحدة، لأن الأصل عدم التعدد وللجمع بين الحديثين خصوصا وقد تلقت الأمة الحديث الآخر بالقبول والعمل به، فلو فرض أنها لم تسرق على ما أخرجه أبو داود عن الليث: حدثني يونس عن ابن شهاب قال: كان عروة يحدث أن عائشة قالت: «استعارت امرأة مني حليا على ألسنة أناس يعرفون و لاتعرف هي فباعته، فأخذت فأتي بها النبي صلى الله عليه وسلم فأمر بقطع يدها» ، وهي التي شفع فيها أسامة بن زيد وقال فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال كان حديث جابر مقدمًا."

السيرة النبوية لابن كثير (3 / 601):

"ثمَّ قَالَ البُخَارِيّ: حَدثنَا مُحَمَّد بن مقَاتل، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَة الْفَتْحِ فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يَسْتَشْفِعُونَهُ.

قَالَ عُرْوَةُ: فَلَمَّا كَلَّمَهُ أُسَامَةُ فِيهَا تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " أَتُكَلِّمُنِي فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ؟ " فَقَالَ أُسَامَةُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ.

فَلَمَّا كَانَ الْعَشِيُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا هلك النَّاسَ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا! ".

ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ فَقُطِعَتْ يَدُهَا، فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بعد ذَلِك وَتَزَوَّجت."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200194

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں