بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زمانہ جاہلیت میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے والے صحابی کا واقعہ


سوال

 وہ کون سے صحابی تھے جنہوں نے  دورِجہالت میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور کیا تھا اور اس واقعہ  کاتذکرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہوئے روپڑے. براہ کرم اس کی کچھ تفصیل بحوالہ حدیث فراہم کریں۔  

جواب

مذکورہ روایت سنن دارمی میں موجود ہے ، البتہ اس میں ان زندہ درگور کرنے والے صحابی کا نام مذکور نہیں۔

 أخبرنا الوليد بن النضر الرملي، عن مسرة بن معبد من بني الحارث بن أبي الحرام من لخم عن الوضين: أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إنا كنا أهل جاهلية وعبادة أوثان، فكنا نقتل الأولاد، وكانت عندي بنت لي فلما أجابت، وكانت مسرورة بدعائي إذا دعوتها، فدعوتها يوما، فاتبعتني فمررت حتى أتيت بئرا من أهلي غير بعيد، فأخذت بيدها فرديت بها في البئر، وكان آخر عهدي بها أن تقول: يا أبتاه يا أبتاه فبكى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى وكف دمع عينيه، فقال له رجل من جلساء رسول الله صلى الله عليه وسلم، أحزنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له: «كف فإنه يسأل عما أهمه» ثم قال له: " أعد علي حديثك فأعاده، فبكى حتى وكف الدمع من عينيه على لحيته، ثم قال له: «إن الله قد وضع عن الجاهلية ما عملوا، فاستأنف عملك»

(سنن الدارمي ،1 / 153،باب ما كان عليه الناس قبل مبعث النبي صلى الله عليه وسلم من الجهل والضلالة، الناشر: دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية)

ترجمہ: وضین روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس ایک صاحب آئے، اور کہا: یا رسول اللہ! ہم لوگ جاہلیت والے اور بتوں کی عبادت کرنے والے لوگ تھے، ہم اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے، اور میری ایک بیٹی تھی، جب وہ  کچھ بڑی ہوئی، اور اس کا حال یہ تھا کہ جب میں اسے بلاتا تو وہ میرے بلانے سے خوش ہوتی تھی، تو ایک دن میں نے اسے بلایا، وہ میرے پیچھے ہو لی، میں چلا یہاں تک کہ اپنے قبیلے کے ایک کنویں پر آیا جو زیادہ دور نہیں تھا، پھر میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، اور اسے کنویں میں ڈال دیا، اور آخری الفاظ جو اس نے مجھے کہے وہ یہ تھے: "اے میرے ابا، اے میرے ابا" .  نبی کریم ﷺ  کو یہ  واقعہ سن کر   رونا آگیا، یہان تک کہ آپﷺ کے آنسو چھلک پڑے، تو ان صاحب سے مجلس میں بیٹھے ایک دوسرے صاحب نے فرمایا کہ آپ نے نبی کریمﷺ کو غمگین کردیا۔ اس کہنے والے سے حضورﷺ نے فرمایا:" اسے کچھ نہ کہو، یہ اس چیز کے بارے میں پوچھ رہا ہے جس نے اسے پریشان کیا ہوا ہے"۔ پھر دوبارہ ان قصہ سنانے والے صاحب سے کہا کہ اپنا واقعہ مجھے دوبارہ سناؤ۔ انہوں نے واقعہ دوبارہ سنایا، آپﷺ پھر روئے یہاں تک کہ آپ کے آنسو آپ کی داڑھی پر بہہ پڑے۔ پھر ان صاحب سے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اہل جاہلیت کے تمام برے افعال (اسلام لانے کی وجہ سے) معاف فرما دئے  ہیں، لہٰذا اب نئے سرے سے اعمال کرو۔

اس روایت کی سند میں تمام راوی ثقہ ہیں ، لیکن روایت مرسل ہے، یعنی وضین تابعی ہیں، اور درمیان میں صحابی کا واسطہ نہیں ہے۔  اس روایت میں واقعہ سن کر نبی کریمﷺ کے رونے کا ذکر ہے، نہ کہ واقعہ سنانے والے صاحب کا۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں