بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زلزلہ کی وجہ سے بھاگنا اور زلزلہ کے وقت کیا پڑھے؟


سوال

کیا زلزلہ میں جان بچانے کے لیے باہر بھاگنا چاہیے؟ اور زلزلہ میں کیا پڑھنا چاہیے؟

جواب

زلزلہ میں جان بچانے کے لیے بھاگنا مستحب ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ  کا جھکی ہوئی دیوار سے بچنے کے لیے  دور ہونا مروی ہے۔

نبی کریم ﷺ  کے زمانہ میں زلزلہ کا آنا کسی معتبر روایات میں نہیں ہے اور نا ہی زلزلہ کے موقع پر کوئی مخصوص ورد   وارد ہوا ہے،  تاہم زلزلہ بھی چوں کہ اللہ کی ان نشانیوں میں سے ہے جو آدمی کو ڈرا دے اور اللہ کی طرف متوجہ کردے، لہذا ایسے موقع  پر اللہ کی طرف رجوع کیا جائے، توبہ و استغفار کی جائے اور موقع ہو تو انفرادی طور پر نوافل میں مشغول ہوجائے ۔

المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (4 / 295):

"زلزلت المدينة على عهد عمر رضي الله عنه، فقال: أيها الناس ما أسرع ما أحدثتم، لئن عادت لا أساكنكم فيها."

فتح الباري لابن حجر (2 / 521):

"فأراد المصنف أن يبين أنه لم يثبت على شرطه في القول عند الزلازل ونحوها شيء."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 756):

"(أخذته الزلزلة في بيته ففر إلى الفضاء لا يكره) بل يستحب لفرار النبي صلى الله عليه وسلم عن الحائط المائل."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 183):

"(صلى الناس فرادى) في منازلهم تحرزًا عن الفتنة (كالخسوف) للقمر (والريح) الشديدة (والظلمة) القوية نهارًا والضوء القوي ليلًا (والفزع) الغالب ونحو ذلك من الآيات المخوفة كالزلازل."

السنن الكبرى للبيهقي (3 / 478):

 

"عن ابن عباس: " أنه صلى في زلزلة بالبصرة، فأطال القنوت، ثم ركع، ثم رفع رأسه فأطال القنوت، ثم ركع، ثم رفع رأسه فأطال القنوت، ثم ركع فسجد، ثم قام في الثانية ففعل كذلك، فصارت صلاته ست ركعات وأربع سجدات ". قال قتادة في حديثه: " هكذا الآيات "، ثم قال ابن عباس: " هكذا صلاة الآيات."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں