بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی ظالم یا گستاخ رسول عورت کو سزا دینا


سوال

1-  سوال یہ ہے کہ عورت اگر ظالمہ ہو دوسری عورتوں پر ظلم کرتی ہو تو کیا اس پر ہاتھ اٹھانا جائز ہو گا ؟

2- اسی طرح یہ حال ہی میں ایک واقعہ پیش آیا ہے جس میں ایک انڈین سیاسی جماعت (بی۔جے۔پی) کی ایک خاتون لیڈر نے معاذ اللہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کی ہے کیا ایسی عورت پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے ؟

جواب

1۔ سوال میں یہ ابہام اور اجمال پایا جارہا ہے کہ ظالم کون ہے؟ اس سوال کا جواب اس ابہام کی تفصیل پر منحصر ہے، البتہ ظالم کو اس کے ظلم سے روکنے اور مظلوم کی مدد کرنے کا شریعتِ  نے حکم دیا ہے اور مظلوم کو ظالم سے ظلم کے بقدر بدلہ لینے کا بھی حق دیا ہے اور معاف کرنے کا بھی اختیار  دیا ہے اور معاف کرنے پر مظلوم کے لیے اجر و ثواب کا وعدہ بھی کیا ہے، لہٰذا اگر کوئی ظالم شخص یا عورت کسی پر ظلم کرے، تو مسلمانوں کو چاہیے کہ جائز اور قانونی طریقہ اختیار کر کے اس کو اس ظلم سے روکیں اور مظلوم کو بھی اختیار ہے کہ چاہے تو شریعت اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے  اس کے ظلم کے بقدر بدلہ لے لے، یا معاف کردے۔

صحیح بخاری میں ہے:

" حدثنا محمد بن عبد الرحيم، حدثنا سعيد بن سليمان، حدثنا هشيم، أخبرنا عبيد الله بن أبي بكر بن أنس، عن أنس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «انصر ‌أخاك ‌ظالما أو ‌مظلوما» فقال رجل: يا رسول الله، أنصره إذا كان ‌مظلوما، أفرأيت إذا كان ‌ظالما كيف أنصره؟ قال: «تحجزه، أو تمنعه، من الظلم فإن ذلك نصره."

(كتاب الاكراه، ج:9، ص:22، ط:دار طوق النجاة)

وفيه أیضاً:

"حدثنا مسدد قال حدثنا معتمر عن حميد عن أنس رضي الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم انصر أخاك ظالما أو مظلوما قالوا يا رسول الله هاذا ننصره مظلوما فكيف ننصره ظالما قال تأخذ فوق يديه."

(كتاب المظالم والغصب، ج:3، ص:128، ط:دار طوق النجاة)

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"قوله: (تأخذ فوق يديه) أي: تمنعه عن الظلم، وكلمة: فوق، مقحمة، أو ذكرت إشارة إلى الأخذ بالاستعلاء والقوة، وفي رواية الإسماعيلي من حديث حميد عن أنس، قال: تكفه عن الظلم فذاك نصره إياه، وفي رواية مسلم من حديث جابر: إن كان ظالما فلينهه، فإنه له نصرة."

(كتاب المظالم والغصب، ج:12، ص:289، ط:دار إحياء التراث العربي)

2۔ سوال میں ذکردہ مسئلہ کا تعلق چوں کہ پڑوسی ملک سے ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس مسئلہ کے بارے معلوم کرنے کے لیے وہاں کے علماء اور مفتیان کرام سے رجوع کیا جائے۔

باقی اگر کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی ناپاک جسارت کرنے کی کوشش کرے، تو ایسے شخص کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر وہ مسلمان ہو، تو   شان رسالت میں توہین کی وجہ سے مرتد ہوکر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اب اگروہ توبہ کرکے مسلمان ہوجائے، تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی، لیکن اگر وہ  اپنی اس قبیح و شنیع حرکت سے توبہ کر کے دوبارہ سے اسلام قبول نہ کرے، تو ایسے آدمی کے بارے تمام فقہاء كا اجماع ہے كہ اس كی  سزا اسلام میں قتل ہے، یہ حکم مسلمان کے بارے میں ہے۔

اور اگر کوئی کافر آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی شان اطهر میں نازیبا کلمات کہے،  تو اس کے بارے میں  حکومتِ وقت کو اختیار ہے کہ اسے تعزیراً سزا دے اور اس سزا کی تعیین حاکمِ وقت کی صواب دید پر موقوف ہے، لیکن اگر اس کے باوجود بھی وہ   اپنے اس عمل سے باز نہ آئے، بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتا رہے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا رہے،  تو  اس کی سزا بھی شریعت نے  قتل رکھی ہے۔

تاہم یہ بات واضح رہے کہ حدود و قصاص کا اجراء کسی فرد کا کام نہیں، بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے، لہٰذا کسی فرد کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر سزا کا نفاذ کرے،بلکہ  اگر اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آجائے، تو مسلمانوں کو چاہیے کہ جائز اور قانونی طریقہ  اختیار کر کے حکومت سے اس کی سزا کے نافذکرنے کا مطالبہ کرتے رہیں۔

الدر المختار میں ہے:

"(ويؤدب الذمي ويعاقب على سبه دين الإسلام أو القرآن أو النبي) - صلى الله عليه وسلم - حاوي وغيره قال العيني: واختياري في السب أن يقتل. اهـ."

وفي الرد تحته:

"(قوله ويؤدب الذمي ويعاقب إلخ) أطلقه فشمل تأديبه وعاقبه بالقتل، إذا اعتاده، وأعلن به كما يأتي، ويدل عليه ما قدمناه آنفا عن حافظ الدين النسفي، وتقدم في باب التعزير أنه يقتل المكابر بالظلم وقطاع الطريق والمكاس وجميع الظلمة وجميع الكبائر، وأنه أفتى الناصحي بقتل كل مؤذ. ورأيت في كتاب الصارم المسلول لشيخ الإسلام ابن تيمية الحنبلي ما نصه: وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا: لا ينتقض العهد بالسب، ولا يقتل الذمي بذلك لكن يعزر على إظهار ذلك كما يعزر على إظهار المنكرات التي ليس لهم فعلها من إظهار أصواتهم بكتابهم ونحو ذلك وحكاه الطحاوي عن الثوري، ومن أصولهم يعني الحنفية أن ما لا قتل فيه عندهم مثل القتل بالمثقل، والجماع في غير القبل إذا تكرر، فللإمام أن يقتل فاعله، وكذلك له أن يزيد على الحد المقدر إذا رأى المصلحة في ذلك ويحملون ما جاء عن النبي - صلى الله عليه وسلم - وأصحابه من القتل في مثل هذه الجرائم، على أنه رأي المصلحة في ذلك ويسمونه القتل سياسة. وكان حاصله: أن له أن يعزر بالقتل في الجرائم التي تعظمت بالتكرار، وشرع القتل في جنسها؛ ولهذا أفتى أكثرهم بقتل من أكثر من سب النبي - صلى الله عليه وسلم - من أهل الذمة وإن أسلم بعد أخذه، وقالوا يقتل سياسة، وهذا متوجه على أصولهم. اهـ. فقد أفاد أنه يجوز عندنا قتله إذا تكرر منه ذلك وأظهره وقوله وإن أسلم بعد أخذه لم أر من صرح به عندنا لكنه نقله عن مذهبنا وهو ثبت فيقبل (قوله قال العيني إلخ) قال في البحر: لا أصل له في الرواية اهـ ورده الخير الرملي، بأنه لا يلزم من عدم النقض عدم القتل، وقد صرحوا قاطبة بأنه يعزر على ذلك، ويؤدب وهو يدل على جواز قتله زجرا لغيره إذ يجوز الترقي في التعزير إلى القتل، إذا عظم موجبه."

(كتاب الجهاد، ج:4، ص:214، 215، ط:سعيد)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله وسب النبي صلى الله عليه وسلم) أي إذا لم يعلن، فلو أعلن بشتمه أو اعتاده قتل، ولو امرأة وبه يفتى اليوم در منتقى وهذا حاصل ما سيذكره الشارح هنا وقيده الخير الرملي بقيد آخر حيث قال أقول: هذا إن لم يشترط انتقاضه به أما إذا شرط انتقض به كما هو ظاهر." 

(كتاب الجهاد، باب المستأمين، ج:1، ص:216،  ط: سعيد)

وفيه  أيضا:

"قلت: ويؤيده أن ابن كمال باشا في أحاديثه الأربعينية في الحديث الرابع والثلاثين: يا عائشة لا تكوني فاحشة ما نصه: والحق أنه يقتل عندنا إذا أعلن بشتمه عليه الصلاة والسلام صرح به في سير الذخيرة، حيث قال: واستدل محمد لبيان قتل المرأة إذا أعلنت بشتم الرسول بما روي «أن عمر بن عدي لما سمع عصماء بنت مروان تؤذي الرسول فقتلها ليلا مدحه صلى الله عليه وسل على ذلك» انتهى فليحفظ.

(قوله حيث قال إلخ) بيانه أن هذا استدلال من الإمام محمد - رحمه الله تعالى -، على جواز قتل المرأة إذا أعلنت بالشتم فهو مخصوص من عموم النهي عن قتل النساء من أهل الحرب، كما ذكره في السير الكبير فيدل على جواز قتل الذمي المنهي عن قتله بعقد الذمة، إذا أعلن بالشتم أيضا، واستدل لذلك في شرح السير الكبير بعدة أحاديث منها: حديث أبي إسحاق الهمداني قال «جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال سمعت امرأة من يهود وهي تشتمك والله يا رسول الله إنها لمحسنة إلي فقتلتها فأهدر النبي صلى الله عليه وسلم دمها»."

(كتاب الجهاد، باب المستأمين، مطلب فيما ينتقض به عهد الذمي وما لا ينتقض ، 1/ 216، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"[فصل في شرائط جواز إقامة الحدود] وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا، وعند الشافعي هذا ليس بشرط".

(كتاب الحدود، فصل في شرائط إقامة الحدود، ج:7، ص:57، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100963

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں