بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ولاالضالین کی جگہ ولا الدالین پڑھنا


سوال

 نماز میں سورت فاتحہ میں ولاالضالین   اور دوالعین  کے بارے میں  کیا اس کے ردو بدل سے نماز ادا ہو جاتی ہے یا نہیں وضاحت درکارہے۔

جواب

نماز میں ضاد کو قصدا   دال  یا ظا کے مخرج سے ادا کرنا غلط ہے اور اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ، ضاد کو    صحیح مخرج سے ادا کر نا چاہیے  ، البتہ  ارادہ تو صحیح مخرج سے ادا کر نے کا ہو  لیکن  صحیح ادا نہیں ہوتا تو اس میں  تین صورتیں ہیں :

1: لوگوں کی قرائت کے وہ صاف دال پڑھتے ہیں  کبھی  کوشش بھی نہیں کر تے کہ اس کو دال ، اور ظا کے  اصل مخرج سے  یا اس کے قریب سے ادا کریں  لہذا انکا یہ فعل ناجائز  ہے اور اس سے نماز بھی نہیں ہو تی ۔

2:دال سے تو ممتاز کر لیتے ہیں اور ظا سے دور  رہتے ہیں ، ان دونوں سے ممتاز ایک جدا آواز ہو تی ہے  جس کو بتا نے کے لیے کو ئی صحیح تعبیر نہیں ہے  البتہ عام طور پر اس کو دال مفخم کی اواز  کہا جاتا ہے (حقیقت میں وہ دال کی آوز نہیں ہے  کیوں کہ اس میں تفخیم ہو تی ہے  اور اصل دال میں تفخیم کا تصور اور وجود نہیں ) چونکہ یہ علیحدہ آواز ہے  نہ ظا ہے نہ دال   ہے  اور ضاد کو ادا کر نے کی نیت سے کی گئی ہے اس لیے ادائے حرف ضاد کے لیے کافی  ہو گئی اور نماز ہو جائے گی۔

3: ادا  کرنے والا ظالین پڑھے  یعنی بالکل ظا پڑھ دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ چونکہ میں ضاد کو ادا نہیں کر سکتا اس لیے اس کو ظا کی آواز کے مشابہ ادا کروں کیوں کہ ضا د اور ظا آپس میں قریب الصوت اور صفات کے مشبہ رکھنے والے ہیں  تو اگر چہ  یہ خیال رکھنا توصحیح نہیں البتہ نماز ہو جائے گی اس لیے کہ اس کا خیا ل ہے کہ میں ضا د کو  اصل مخرج سے ادا نہیں کر سکتا  اور جس طرح ادا کیا ہے  وہ ضاد کے بعض مخرج  پر مشتمل ہے ، لیکن اگر یہ شخص قصد کر لے کہ میں ظا  پڑھ رہا ہوں تو پھر اس کی بھی نماز نہیں ہو گی ۔

فتاوى قاضيخان   میں ہے:

"و إن ذكر حرفًا مكان حرف و غير المعني، فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ: الطالحات مكان الصالحات، تفسد صلاته عند الكل، و إن كان لايمكن الفصل بين الحرفين الا بمشقة كالظاء مع الضاد و الصاد مع السين، و الطاء مع التاء، اختلف المشائخ فيه، قال أكثرهم لاتفسد صلاته ... و لو قرأ الدالين بالدال تفسد صلاته".

( كتاب الصلاة، فصل في القراءة في القرآن، ١ / ١٢٩ - ١٣١، ط: دار الكتب العلمية )

فتاوی شامی میں ہے :

"فما دام في التصحيح والتعلم ولم يقدر عليه فصلاته جائزة، وإن ترك جهده فصلاته فاسدة كما في المحيط ".

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ،582/1،ط:سعید)

ایضا :

"قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، وإن جرى على لسانه أو لا يعرف التمييز لا تفسد، وهو المختار حلية وفي البزازية: وهو أعدل الأقاويل، وهو المختار ".

(کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا،633/1، ط:سعید)

الاتقان في علوم القرآن  ميں ہے :

"‌والضاد والظاء اشتركا صفة جهرا ورخاوة واستعلاء وإطباقا وافترقا مخرجا وانفردت الضاد بالاستطالة".

(350/1،ط:الهيئة المصرية العامة للكتاب)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507102243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں