بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ژالہ باری کے موقع پر اذان دینا


سوال

ژالہ باری کے  وقت اذان دینا کیسا ہے؟

جواب

شدید بارش یا ژالہ باری کے موقع پر اذان دینا شریعت میں ثابت نہیں،  البتہ بعض ناگہانی آفات اورشدید مصائب وپریشانی کے مواقع پر اذان دینے کی بعض فقہاء نے اجازت دی ہے، البتہ ان مواقع پر اذان دینی ہو تو درج ذیل شرائط کا خیال رکھا جائے:

1۔۔ اس عمل کے سنت یا مستحب ہونے کا اعتقاد نہ ہو۔

2۔۔  اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر  نہ کیا جائے۔

3۔۔ مساجد میں یہ اذان نہ دی جائے۔

4۔۔  اس کے لیے کسی مخصوص ہیئت اور  اجتماعی کیفیت کا التزام نہ کیا جائے۔

بہرحال اگر ان شرائط کی رعایت کے ساتھ  شدید ژالہ باری کے موقع پر کسی نے اذان دے دی تو اسے بدعت نہیں کہا جائے گا، البتہ حنفیہ کے نزدیک یہ اذان ثابت نہیں ہے۔

فتاوی بینات میں ہے :

’’ علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: خیرالدین رملی رحمہ اللہ کے حاشیہ بحر میں ہے کہ میں نے شافعیہ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع میں اذان مسنون ہے، مثلاً: نومولود کے کان میں، پریشان، مرگی زدہ، غصّے میں بھرے ہوئے اور بدخلق انسان یا چوپائے کے کان میں، کسی لشکر کے حملے کے وقت، آگ لگ جانے کے موقع پر. (شامی حاشیہ درمختار ج:۱ ص:۳۸۵)

خیرالدین رملی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ دہشت پسندوں کے حملے کے موقع پر اذان کہنا حنفیہ کی کتابوں میں تو کہیں مذکور نہیں، البتہ شافعیہ کی کتابوں میں اس کو مستحب لکھا ہے، اس لیے ایسی پریشانی کے موقع پر اذان دینے کی ہم ترغیب تو نہیں دیں گے، لیکن اگر کوئی دیتا ہے تو ہم اس کو ”بالکل غلط حرکت“ بھی نہیں کہیں گے، البتہ نومولود کے کان میں اذان کہنا احادیث سے ثابت ہے، اور فقہِ حنفی میں بھی اس کی تصریح ہے...‘‘ (2/231)

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله : وخرج بالفرائض إلخ ) قال الرملي: أي الصلوات الخمس، فلايسن للمنذورة. ورأيت في كتب الشافعية: أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم والمفزوع، والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل: وعند إنزال الميت القبر قياساً على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه أقول : ولا بعد فيه عندنا". (3/10)

فتاوی شامی میں ہے :

" مطلب في المواضع التي يندب لها الأذان في غير الصلاة

(قوله: لايسن لغيرها ) أي في الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر للخير الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة كما في أذن المولود والمهموم والمصروع والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة وعند مزدحم الجيش وعند الحريق قيل وعند إنزال الميت القبر قياسًا على أول خروجه للدنيا لكن رده ابن حجر في شرح العباب وعند تغول الغيلان أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه أقول ولا بعد فيه عندنا ا هـ أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه".(1/385)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں