بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث ہر نبی کو موت کے وقت اختیار دیا جاتا ہے اور حدیث حضرت زکریا علیہ السلام جب درخت میں چھپے تھے تو یہود نے آپ کو آرے سے چیر دیا کی تحقیق، اور زکریا علیہ السلام سے اس وقت کیسے اجازت لی گئ ؟


سوال

اللہ کے نبی نے فرمایا کہ ہر نبی سے پوچھا گیا کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتے ہیں یا اپنے اللہ کے پاس جانا چاہتے ہیں؟  اللہ کے نبی نے فرمایا کہ میں نے اپنے اللہ سے ملاقات کا انتخاب کیا ۔

اس کے علاوہ مشکوۃ کی حدیث ہے کہ اللہ کے نبی سے موت کا فرشتہ اجازت لے کر ملاقات کے لیے آیا اور اس نے کہا کہ میں کسی سے بھی اجازت لیے بغیر آتا ہوں اور روح نکال لیتا ہوں ، پھر روح نکالنے کی اجازت بھی نہ لی ، اس کے بعد آپ نے روح نکالنے کی اجازت دے دی۔

اس میں اشکال یہ  ہے کہ ہر نبی سے اجازت لی جاتی ہے تو حضرت زکریا علیہ السلام  جب درخت میں چھپے تھے تو یہود نے آپ کو آرے سے چیر دیا تو اس وقت کیسے اجازت لی؟

جواب

متعدد مستند احادیث نبویہ میں وارد ہے کہ ہر نبی کو اس کی  وفات سے قبل  دنیا میں مزید زندگی گزارنے اور آخرت کے سفر اوررب تعالی کی ملاقات کے مابین اختیار دیا جاتا ہے، چنانچہ  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی روایت ہے:

عن عائشة "عن صلى الله عليه وسلم، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وهو صحيح: «إنه لم يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة، ثم يخير» فلما نزل به ورأسه على فخذي غشي عليه ساعة، ثم أفاق فأشخص بصره إلى السقف، ثم قال: «اللهم الرفيق الأعلى» قلت: إذا لا يختارنا، وعرفت أنه الحديث الذي كان يحدثنا به. "

ترجمہ:" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبیﷺ نے حالت صحت میں ارشاد فرمایا: کسی بھی  نبی  کی دنیا میں اس وقت تک روح قبض نہیں کی جاتی جب تک جنت میں اس کے رہنے کی جگہ اسے دکھا نہ دی جاتی ہو،  اور پھر اسے (دنیا وآخرت کے لئے) اختیار دیا جاتا ہے، پھر جب نبیﷺ بیمار ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی چھاگئی، پھر جب ہوش آیا تو آپ چھت کی طرف ٹٹکی(ایک ہی جگہ نظر ٹکا کر دیکھتے رہنا) لگا کر دیکھنے لگے، پھر فرمایا:"اللھم الرفیق الاعلی"، میں نے کہا  کہ آپﷺ ہمیں ترجیح نہیں دے سکتے ،اور میں سمجھ گئی کہ یہ وہی حدیث ہے جو حضور نے ایک  مرتبہ ارشاد فرمائی تھی۔"

ذکر کردہ حدیث کا مضموکی تقدیم وتاخیر کے متعدد  کتب  حديث میں وارد ہے۔

(صحیح البخاری، بَابُ مَنْ انْتَظَرَ حَتَّى تُدْفَنَ، (8/ 106) برقم (6509)، ط/دار طوق النجاۃ)

(صحیح مسلم، بَابٌ فِي فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا، (4/ 1894) برقم (2444)، ط/ داراحیاء التراث العربی)

(مسنداحمد (41/ 130) برقم (24583)، ط/ مؤسسةالرسالة)

ہر نبی کو اس کی  وفات سے قبل  دنیا میں مزید زندگی گزارنے اور آخرت کے سفر اوررب تعالی کی ملاقات کے مابین اختیار دیےجانے سے  متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ(المتوفی:852 ھ) لکھتے ہیں کہ یہ انبیاءکرام کرام کی خاصیت ہے ، ان کی عبارت ملاحظہ فرئیں: 

وأن هذه الحالة من خصائص الأنبياء أنه لا يقبض نبي حتىيخير بين البقاء في الدنيا وبين الموت. "

(فتح الباری، بَابُ تَمَنِّي الْمَرِيضِ الْمَوْتَ، (8/ 137)، ط/ دار المعرفة بیروت)

حضرت زکریا علیہ السلام کوآرے سے   قتل کیا گیا یا وہ  طبعی موت وفات پاگئے؟  

آپ نے لکھا کہ’’ حضرت زکریا علیہ السلام  جب درخت میں چھپے تھے تو یہود نے آپ کو آرے سے چیر دیا تو اس وقت کیسے اجازت لی؟‘‘  اوّلا تو اس واقعہ کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ واقعہ کس درجہ کا ہے؟اسرائیلی روایات کے مشہور ناقل تابعی وہب بن  منبہ  رحمہ اللہ سے حضرت زکریا علیہ السلام کے قتل کیے جانے اور طبعی موت وفات پاجانےدونوں کی طرح روایات منقول ہیں ، جیسا کہ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ(المتوفى: 774ھ) نقل فرماتے ہیں : 

"وَقَدِ اخْتَلَفَتِ الرِّوَايَةُ عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ: هَلْ مَاتَ زَكَرِيَّا عَلَيْهِ السَّلَامُ مَوْتًا أَوْ قُتِلَ قَتْلًا عَلَى رِوَايَتَيْنِ: فَرَوَى عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ إِدْرِيسَ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَنَّهُ قَالَ هَرَبَ مِنْ قَوْمِهِ فدخل شجرة فجاءوا فوضعوا المنشار عليهما فَلَمَّا وَصَلَ الْمِنْشَارُ إِلَى أَضْلَاعِهِ أَنَّ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ لَئِنْ لَمْ يَسْكُنْ أَنِينُكَ لَأَقْلِبَنَّ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا فَسَكَنَ أَنِينُهُ حَتَّى قُطِعَ بِاثْنَتَيْنِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا فِي حَدِيثٍ مَرْفُوعٍ سَنُورِدُهُ بَعْدُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ. وَرَوَى إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ عَنْ إِدْرِيسَ بْنِ سِنَانٍ عَنْ وَهْبٍ أَنَّهُ قَالَ الَّذِي انْصَدَعَتْ لَهُ الشَّجَرَةُ هو شعيا فَأَمَّا زَكَرِيَّا فَمَاتَ مَوْتًا فاللَّه أَعْلَمُ. "

یعنی    ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زکریا علیہ السلام طبعی موت پاگئے یا انہیں شہید کیا گیا؟ اس  معاملہ میں وہب بن  منبہ سے دونوں طرح کی روایت ملتی ہیں :  

(1)عبد المنعم بن ادریس  اپنے والد کے توسط سے وہب بن منبہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ زکریا علیہ السلام اپنے قوم سے بھاگ کر درخت میں چھپ گئے تھے، پس ان کی قوم نے  آرا (درخت وغیرہ  کاٹنے کا مشہور آلہ) ان دونوں (درخت اور زکریا علیہ السلام جو اس درخت میں تھے) کے اوپر رکھ دیا(یعنی چلا دیا)، پس جب وہ آرا  ان کی پسلیوں تک پہنچا توانہوں نے تکلیف کا اظہار کیا، تو اللہ تعالي نے وحی فرمائی کہ اگر آپ تکلیف کے اظہار سے نہیں رکیں گے  تو زمین اور جو کچھ اس پر ہے اسے الٹ دیا جائے گا، پس پھر زکریا علیہ السلام تکلیف کے اظہار کرنے سے رک گئے، یہاں تک کہ دونوں (درخت اور زکریا علیہ السلام) کاٹ دیے گئے،  اور یہ بات تو ایک مرفوع حدیث میں بھی آئی ہے ، جسے ہم بعد میں لائیں گے۔

(2)  اسحاق بن بشر  ادریس بن سنان کے توسط سے  وہب بن منبہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ    جن کے لیے درخت پھٹ گیا تھا وہ تو شعیا تھے، باقی زکریا علیہ السلام تو طبعی موت وفات پاگئےتھے، واللہ اعلم۔

(البدایة والنھاية،قصة زكريا ويحيى عليهما السلام، (2/ 52)، ط/ دار الفکر)

مذكوره عبارت سے واضح ہوا کہ اس واقعہ ِقتلِ زکریا علیہ السلام کی ایک حیثیت  اسرائیلی روایت کی ہے، اور اسرائیلی روایات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی ایسی بات ہو جس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہو تو ہم ایسی روایات کی تصدیق کریں گے اور ان روایات کا بیان کرنا جائز بھی ہوگا، اور جن میں ایسی باتیں ہوں جس کی تصدیق تو ہمیں قرآن و حدیث میں نہ ملتی ہو، لیکن وہ قرآن و حدیث (یعنی شریعت) کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتی بھی نہ ہوں تو ایسی روایات کا حکم یہ ہے کہ ہم نہ تو ان روایات کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب کریں گے، البتہ ان روایات کو بیان کرنے کی گنجائش ہوگی،لیکن یہاں پر   تو اسرائیلی روایات میں بھی باہم اختلاف پایا جا رہا ہے کہ ایک روایت قتل زکریا علیہ السلام بتلا رہی ہے، اور دوسری وفات زکریا علیہ السلام، لہذا اس میں ترجیح کے لیے اس مرفوع روایت کو دیکھا جائے جس کی طرف ابن کثیر رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے،  وہ روایت’’ مسند الفردوس ‘‘دیلمی میں حضرت ابو هريره رضي الله عنه  سے کچھ یوں مروی ہے:

"أبو هريرة، طلبت بنو اسرائيل زكريا ليقتلوه، فخرج هاربا في البرية، فانفجرت له شجرة، فدخل فيها، وبقيت هدبة من ثوبه، فجاؤوا حتى وقفوا عليها، فنشروه بالمناشير."

یعنی  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: بنی اسرئیل کے لوگ حضرت زکریا کی تلاش میں لگ گئے تا کہ انہیں قتل کردیں، تو وہ اس حالت کو دیکھ کر جنگل کی طرف نکل گئے ، وہاں ایک درخت ان کے لیے کُھل گیا ، وہ اس میں داخل ہوگئے، لیکن ان کے کپڑے کا کچھ حصہ باہر رہ گیا، پس وہ لوگ  آگئے دیکھ کر اور پھر آرے سے انہیں چیر دیا۔

(مسند الفردوس، باب الطاء،(2/ 459) برقم (3966)، ط/ دار الكتب العلمية)

مسند فردوس کی مذکورہ روایت بمع سند ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفى : 852ھ) نے ’’ الغرائب الملتقطة‘‘میں  یوں نقل کی ہے:

"قال: أنا محمد بن علي الحسيني، أنا أبي، نا محمد بن إبراهيم الزنجاني، نا محمود بن محمد البرذعي، نا علي بن محمد بن مبارك - شيخ صالح -، نا عبد الكريم بن الهاشم، نا محمد بن موسى، نا شعيب بن بيان، نا عمران القطان، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: خرجت بنو إسرائيل في طلب زكريا عليه السلام ليقتلوه، فخرج هاربا في البرية، فانفجرت له شجرة فدخل فيها، فبقيت هدبة من ثوبه، فجائوا حتى قاموا عليها فنشروه بالمنشار."

(الغرائب الملتقطة، حرف الخاء المعجمة، (4/ 410 و411 و412) برقم (1502)، ط/ جمعية دار البر، دبي)

مسند فردوس دیلمی کی روایت کا حکم ،اورمذکورہ دو اسرائیلی روایات میں راجح روایت: 

مذكوره مرفوع روايت سوائے دیلمی کے اور کسی ہاں کے ہاں منقول نہیں ، مزید یہ کہ  اس کی سند بھی ضعیف ہے کہ اس میں   بعض راوی تو محدثین کی صراحت کے مطابق کمزور ہیں، اور بعض ایسے ہیں کہ جن کی حالت مجہول ہے(یعنی ان کے حالات دستیاب نہیں )، لہذا  اس سے قتل زکریا علیہ السلام کا واقعہ نبی علیہ السلام  کی نسبت سے ثابت کرنا تو درست نہ ہوگا ، البتہ اتنی بات ہے کہ یہ روایت وہب بن منبہ رحمہ اللہ کی مذکور دو مختلف اسرائیلی روایات میں ترجیح کا ذریعہ بن جائے، اور یوں کہا جائے کہ وہب بن منبہ رحمہ اللہ کی  مذکورہ دو آاراء ميں سے قتل زکریا علیہ السلام والی روایت زیادہ راجح ہے کہ اس بابت مسند فردوس کی یہ روایت بھی وہی مضمون بیان کررہی ہے ، نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو آرے سے قتل کیا جانا یہ اسرائیلی روایات سے ثابت ہے ، ہم اس کی نہ تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب ، البتہ اس کے بیان کرنے کی گنجائش ہوگی۔

حضرت زکریا علیہ السلام کو موت کے وقت کیسے  اختیار دیا گیا؟ 

تلاش کے باوجود معتبر تاریخی ذخیرہ  کی کسی روایت میں  حضرت زکریا علیہ السلام کو موت کے وقت اختیار دیے جانے  سے  متعلق تذکرہ ہمیں نہیں مل سکا، لیکن  اصولی طور پر اس سے اختیار دیے جانے  کی نفی بھی لازم نہیں آتی ہے۔

خلاصہ کلام

(1)متعدد معتبر احادیث کے مطابق  تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو  موت سے قبل زندہ رہنے یا  رب تعالی سے ملاقات کے مابین اختیار دیا جاتا ہے، جیسا کہ اوپر متعدد کتب کے حوالہ سے روایات  پیش کی گئیں۔

(2) انفرادی  طور پر مختلف انبیاء کے جو واقعات  بیان کیے جاتے ہیں، ان کے متعلق اصول یہ ہے کہ اگر وہ صحیح سند سے ثابت ہیں  تو ان کا بیان کرنا درست ہوگا، لیکن جن واقعات کی سند درست  نہیں، ان کو بیان کرنا بھی درست نہیں۔

(3) موت سے قبل اختیاردیا جانا ، یہ بات  عالمِ غیب سے تعلق رکھتی  ہے، اور وہاں تک بذریعہ وحی ہی رسائی ممکن ہے، لہذا   نص میں وارد عموم (نکرۃ نحت النفی ، لفظ ’’قط‘‘ ماضی کی تاکیدا نفی کا استعمال کیا جانا وغیرہ  )کو مد نظر رکھتے ہوئے  اس بات کا عقیدہ رکھا جائے گا کہ حق تعالی شانہ کی جانب سے حضرت زکریا علیہ السلام سمیت ہر نبی کو اختیار دیا گیا، پھر  خواہ اس نبی  کی موت طبعی واقع ہوئی ہو یا شہید کیاگیا ہو، البتہ حضرت زکریا علیہ السلام کو اختیار دینے کی نوعیت چونکہ روایات میں مذکور نہیں، اس لیے اس کے متعلق سکوت ہی مناسب ہے۔ 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144204200119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں